تحریر : عماد ظفر رائے ونڈ مارچ ایک اور ایسا ایونٹ ہے جسے الیکٹرانک میڈیا کی مہربانی سے بے حد بڑا کر کے یوں دکھایا جا رہا ہے جیسے تحریک انصاف یا عمران خان بس ماوزے تنگ کی مانند اس لانگ مارچ سے “انقلاب” لاتے ہوئے سٹیٹس کو اور نظام کو تبدیل کر دیں گے اور پھر راوی ہر جانب چین ہی چین لکھتا دکھائی دے گا. یاد رہے ماوزے تنگ نے چین میں جو لانگ مارچ کیا تھا اس میں خود نہ صرف وہ شانہ بشانہ سیاسی کالموں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے بلکہ قدم قدم پر انہیں ریاستی جبر کا سامنا تھا.ادھر پچھلے تین برس سے جناب عمران خان مزے سے ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں سوار مختلف شہروں کو جبری بند کروا کر اپنی جماعت کے کارکنوں سے بھنگڑے ڈلوانے کے بعد آرام سے اپنے بنی گالہ کے محل میں واپس چلے جاتے ہیں.
پچھلے تین برسوں میں الیکٹرانک میڈیا کے “حوالدار اینکرز” اور جناب عمران خان نے جتنی مٹی لفظ “انقلاب” کی پلید کی ہے شاید ہی دنیا کی تاریخ میں کسی اور نے کی ہو. اگر پچھلے تین برسوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں چند میڈیا ہاوسز صحافی حضرات اور ناکام سیاستدانوں نے مل جل کر اپنے اپنے سیاسی یا مالی مفاد کے تحفظ کی خاطر ہر آن نواز شریف اور ان کی جماعت کو سیاسی طور پر مزید مضبوط ہی کیا ہے. دھاندلی کی بنیاد پر جو احتجاج شروع ہوا تھا وہ اب پانامہ لیکس کو لے کر جاری و ساری ہے . اور روزانہ کی بنیادوں پر کبھی ٹاک شوز میں جج بن کر نواز شریف اور ان کی حکومت کے خلاف خود ہی سزائیں سنائی جاتی ہیں تو کبھی سڑکوں چوراہوں پر بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بنا جاتا ہے.
خیر رائے ونڈ مارچ بھی پچھلے احتجاجوں کی مانند ناکام ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے اور محترم عمران خان اس احتجاج میں ایک بار پھر تن تنہا کھڑے 2014 کے دھرنوں کی پوزیشن میں واپس جا چکے ہیں. حکمران جماعت دوسری جانب ضمنی انتخابات میں پے در پے کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اب کم سے کم عمران خان کو کوئی لفٹ دیتی دکھائی نہیں دیتی. پانامہ لیکس کا جو بیانیہ انتہائی کامیابی سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے شریف برادران کے خلاف بنایا گیا کم سے کم انتخابی سیاست میں اس کے دور دور تک کوئی اثرات شریف برادران کی جماعت پر پڑتے دکھائی نہیں دئیے.
Election
چیچہ وطنی میں حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنی جیتی ہوئی نشست نون لیگ کے ہاتھوں گنوائی اور ٹیکسلا میں بھی صوبائی اسمبلی کی اپنی ہی جیتی ہوئی نشست نون لیگ کو دے بیٹھی. 2013 کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کو سوائے ملتان کے ایک حلقے کے ضمنی انتخابات کی جیت کے قریب 16 نشستوں پر شکست ہو چکی ہے اور ان میں سے کم و بیش 6 یا 7 کے قریب نشستیں ایسی ہیں جو تحریک انصاف 2013 کے عام انتخابات میں جیتی تھی. اگر ان نتائج کو سامنے رکھا جائے تو عام انتخابات 2018 کے نتائج کا اندازہ لگانا ہر چند مشکل نہیں. یہی وجہ ہے کہ محترم عمران خان ہر قیمت پر اس نظام کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انتخابات کے ذریعے ان کی جماعت کبھی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی. یعنی عمران خان کے پاس ہارنے کو کچھ بھی باقی نہیں. دوسری جانب پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ نظام ڈی ریل ہوا تو سندھ میں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اس لیئے پیپلز پارٹی ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کر رہی . اور خاموشی سے 2018 کے انتخابات میں سندھ بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے.رہی سہی کثر عمران خان کی جلد بازی اور رائے ونڈ کی جانب مارچ کے غلط سیاسی فیصلے نے پوری کر دی اور ان کے اپنے سیاسی کزن طائر القادری نے بھی اس مارچ میں شرکت سے انکار کر دیا.
چوہدری برادران نے بھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس مارچ میں شرکت سے انکار کیا بلکہ دبے الفاظ میں عمران خان کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ گھروں کا محاصرہ کرنے کی رسم نہ ڈالی جائے تو بہتر ہے. خیر ملکی سیاستدانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت نے پہلے ہی راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک اور یو ٹرن لیا تھا اور کہا تھا کہ ہم رائے ونڈ میں نواز شریف کے گھر کا گھیراو کرنے نہیں بلکہ ان کے گھر سے دور ایک جلسہ کرنے جا رہے ہیں.اب سیاسی بصیرت رکھنے والوں کیلئے یہ ٹو ٹرن واضح اشارہ کرتا ہے کہ کسی کا بھی مشورہ نہ ماننے والے جناب عمران خان کو اچانک کہاں سے کہا گیا کہ گھر کا محاصرہ نہیں کرنا. آف شور کمپنیوں میں نام تو نیازی سروسز نامی کمپنی کا بھی آیا تھا اور علیم خان اور جہانگیر ترین کی کمپنیاں بھی سامنے آئیں. لیکن نہ تو حوالدار اینکرز اور صحافیوں نے اس بارے میں عمران خان سے پوچھنے کی زحمت کی اور نہ ہی خود جناب عمران خان کو یہ خیال آیا کہ پہلے اپنے گریبان میں ہی جھانک کر دیکھ لیا جائے. البتہ ایک چیز جس میں عمران خان اور شیخ رشید کامیاب ہوئے وہ ” مینوفیکچرڈ بیانیہ” ہے اور یہ بیانیہ پڑھی لکھی اشرافیہ اور مڈل کلاس کی اکثریت کو ہی جمہوریت سے بدظن کرنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے.
PTI Raiwind March
ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے “حوالدار اینکرز” اور دفاعی تجزیہ نگار جو کہ اکثر مشرف دور کے ریٹائرڈ جرنیلز ہیں انہوں نے انتہائی کامیابی سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جو صرف ایک ادارے کو مقدس گائے جبکہ باقی تمام اداروں کو نظام کی خرابی کا موجب قرار دیتا ہے.یہ بیانیہ البتہ انتخابی نتائج پر اس لیئے اثر انداز نہیں ہوتا کہ ٹی وی سکرینوں کے ٹاک شوز سے متاثر ہو کر اس بیانیے پر ایمان لانے والے ایک تو تعداد میں کم ہیں دوسرا وہ ووٹ ڈالنے کی مشقت بھی کم کرتے ہیں جبکہ جلسوں جلوسوں کی خواریاں تو بہت دور کی بات ہے. اب یہ بیانیہ کسی بھی طالع آزما کے شب خون مارنے کے کام تو آ سکتا ہے لیکن انتخابی عمل میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں. سو ایک طرح سے محترم عمران خان نے پہلے ہی سے سیاسی میدان میں شکست تسلیم کر لی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں انتشار یا ٹکراو میں ہی اپنی سیاسی بقا نظر آتی ہے. ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے صاف دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف کا رائے ونڈ مارچ ایک اور سیاسی مس ایڈونچر ثابت ہو گا اور ملکی میڈیا ہمیشہ کی طرح اس مس ایڈونچر پر بھی پردہ ڈال کر عمران خان اور شیخ رشید جیسے لوگوں کو اس قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے میں دن رات ایک کرتا رہے گا.
اگر عمران خان اس رائے ونڈ مارچ کے بعد صرف ایک دن بس یہ تجزیہ کر کے دیکھ لیں کہ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے ان کے ارد گرد جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہ الدین جیسے لوگ موجود تھے اور آج شیخ رشید اور علیم خان جیسے تلنگے تو شاید انہیں احساس ہو سکے کہ شکست کو نہ تسلیم کر پانے کی وجہ سے ایک کے بعد ایک غلطی نے نہ صرف ان کے چاہنے والوں کو ان سے متنفر کر دیا ہے. بلکہ انہیں شیخ رشید جیسی زبان و کردار کا حامل سیاستدان بنا ڈالا ہے.
باقی الیکڑانک میڈیا کا اپنا مفاد ٹی آر پی ریٹنگز اور ان کے مالکان کی دبی ہوی فائلوں کے دبے رہنے میں ہوتا ہے اس لیئے الیکٹرانک انقلابات تو شاید روز کی بنیادوں پر آتے رہیں لیکن رائے ونڈ جیسے مارچ یا احتجاج نہ تو کامیاب ہوں گے اور نہ ہی ان سے کسی انقلاب کا سورج طلوع ہو گا.