تحریر : رقیہ غزل یوں تو رائیونڈ جلسہ جوئے شیر بہا لانے سے کم دکھائی نہیں دیتا تھا کہ کہیں اسے غیر اخلاقی فعل قرار دیا جا رہا تھا اور کہیں لاہور پر حملہ گردانا جا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ بر سر اقتدار جماعت کے بعض کم عقل جیالوں کی طرف سے سر عام ڈنڈے اور غنڈے دکھائے گئے جنھیں میڈیا نے بھی ہیڈ لائین بنایا تو کہیں کسی مدمقابل نے جواباً گندے انڈوں کی برسات کا عندیہ سنایا الغرض تمام اطراف کی ہوائیں کہہ رہی تھیں کہ جلسہ نہیں ہوگا اوربالفرض ہو بھی گیا تو خون خرابہ کا قوی امکان ہے جس میںہمیشہ کی طرح سادہ لوح پسے گا مگر میاں صاحب زیرک اوروقت شناس نکلے کہ انھوں نے اپنے حلیفوں کے مشوروں پر عمل نہیں کیا اور کمال ضبط اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈنڈا بردار لیگی راہنمائوں کو روکا اور خاموش رہنے کا اشارہ دیا یقینا یہی وجہ تھی کہ یہ جلسہ روائتی دھرنا سیاست کا حصہ قرار پایا اور فلک شگاف نعروں اور واشگاف دعووں کا بت ایک بار پھر مسمار ہوا نہ ڈنڈے چلے اورنہ انڈے پھٹے البتہ ایک بار پھر مایوس کن نتیجہ برآمد ہوا وہی پی ٹی آئی کے راہنمائوں کے گھسے پٹے الزامات ،وہی پرانے سیاپے، کرپشن اور کرپٹ مافیا کی راز افشانی اور خود کو حاجی ثابت کرنے کی کوششیں اور ایک نئی تاریخ کا شوشہ:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرئہ خوں نہ نکلا
ویسے اس سارے مرحلے میں ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی منافقت اور آمرانہ سوچ کھل کر سامنے آگئی ہے جس کا تذکرہ میں کم و بیش ٩ کالموں میں کر چکی ہوں کہ جو لوگ اپنی واری کے خود منتظر بیٹھے ہیں وہ کیسے کسی کا ساتھ دے سکتے ہیں اور با قی وہ لوگ ہیں جن کا سیاسی نصب العین ہی یہ ہے کہ ”جب تراحکم ملا ترک محبت کر دی ” اسی بات کی تائید میں جناب شیخ رشید نے پھڑکتا ہوا بیان داغا ہے کہ اپوزیشن راہنما گندے انڈے اور منافق ہیں کہ جب حکومت مخالف تحریک کی باری آتی ہے تو منہ موڑ لیتے ہیں اور عمران خان کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں ،جناب شیخ رشید کا جوش اور لفظیات دونوں ہی حیران کن ہیں مگر ان کاغصہ بھی بجا ہے چونکہ وہ بھی درحقیقت ایک عرصے سے تشنہ لب ہونے کیوجہ سے میاں صاحب سے ناراض ہیں ویسے اس سے تو انحراف ممکن نہیں کہ خان صاحب نے جو لوگ اپنی صفوں میں شامل کئے ہیں وہ حقیقتاً دوسروں سے ناراض اور تہی دامن ہی ہیں ورنہ جس طور انھوں نے سابقہ زندگیاں گزاری ہیں انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ ”کرپشن” کی بات کریں جبکہ وہ سائیکل سے گاڑیوں تک کیسے پہنچے یہ بھی معمہ ہے جو کہ شاید کبھی حل نہیں ہوگا ویسے جناب آصف زرداری نے بھی کہہ ہی دیا ہے کہ خان صاحب سیاست میں نا بالغ ہیں۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیاسی بالغ نظری کا ہی تو اثر ہے کہ پیپلز پارٹی تیسری جماعت بن گئی ہے اور یہ بالغ نظر سیاست دانوں کی ہی تو مہربانی ہے کہ پاکستان آج اس مقام پر کھڑا ہے کہ کہنے کو سب اچھا ہے مگر جسے دیکھیں وہ رو رہا ہے لیکن یہ طے ہے کہ خان صاحب نے تنہا ایک بڑا اور کامیاب جلسہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ان کا ایک واضح اور کھٹکنے والا وجود ہے اور اس ملک میں یقیناً اب تین نمایاں جماعتیں موجود ہیں ویسے خان صاحب نے جو بھی آج تک کہا ہے شدید مزاحمت اور طنزو تشنیع کے ماحول میں بھی وہ کر دکھایا ہے اس کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی باقی رہی بات محرم الحرام کے بعد اسلام آباد بند کرنے کی اور اس سارے احتجاج کے نتیجے کی تو وہ حکومتی ردعمل سے واضح ہو چکا ہے یہی تو وہ رویے ہیں جو عوام کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کیا خطا کر بیٹھے ہیں بہرحال پانامہ مقدمہ عوام کی عدالت میں ہے اور آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ کیا ہو گا یا وہی ہوگا کہ جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ اسلام آباد بند کرنے والے تھک کر اٹھ جائیںگے اور دیکھنے والے گنگنائیں گے کہ
جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا ۔۔۔جا ۔۔!
اک طرف سیاسی خانہ جنگی عروج پر ہے تودوسری طرف بھارت عالمی برادری کے سامنے بری طرح بے نقاب اور بدنام ہو چکا ہے نیوکلئیر وار اور سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے والا بھارت بھی سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھتا دکھائی دے رہا ہے اپنی طرف سے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے بلا اشتعال فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دیا جس کے نتیجہ میں پاک فوج کی جوابی کاروائی سے بھارت کا وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا پاک فوج نے سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوے بے نقاب کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو کنٹرول لائین کا دورہ کروایا جس کا مقصد بھارتی حکمرانوں کی عیاری اور جھوٹ کو عیاں کرنا تھالیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو اگلے مورچوں کا دورہ کروانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا کو بھارت کی چالاکیوں اور عیاریوں سے با خبر رکھا جا سکے۔
Nawaz Sharif
انھوں نے مزید کہا کہ حکومتی ذرائع نے بھارتی حکمرانوں کو متنبع کر دیا ہے کہ اگر انھوں نے ایسی اشتعال انگیزی کی دوبارہ کوشش کی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تمام حکمت عملی بروئے کار لائے گا اور اس بارے جناب آرمی چیف جنر ل راحیل شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ دشمن کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا اس لیے بھارتی سورمائوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسے سرجیکل سٹرائیک جیسے ڈراموں ،ہرزہ سرائی اوربلا اشتعال فائرنگ سے باز رہیں جو ان کا اصلی اور مکروہ چہرہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں جس پر انھیں ان کا اپنا باشعور اور سنجیدہ طبقہ بھی لعن طعن کر رہا ہے اور پوری دنیا میں مودی سرکار تماشا بن رہا ہے کہ ایک طرف تو انسانیت سوز مظالم کی کشمیر میں داستان رقم کر رہا ہے۔
دوسری طرف کبھی پانی بند کرنے اور کبھی نیو کلئیر وار کاخوف مسلط کرنے کی خبریں سنا رہاہے یعنی مسلسل خطے کا امن و امان تباہ کر رہا ہے یہ طے ہے کہ اگر یہ اپنی مذموم کاروائیوں سے باز نہ آیا تو خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے بھارت کے جارحیت پسند راہنمائوں کو جنگی جنون ختم کر کے انسانیت کا سبق پڑھنا چاہیئے اوربین الاقوامی سطح پر اسلحہ اور جنگی سامان بیچنے والوں کے عزائم کو سمجھنا چاہیئے کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے ویسے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بھارتی افواج اتنی بیوقوف تو نہیں اور نہ ان کی ایسی پوزیشن ہے کہ محض اپنے خون آشام وزیراعظم کی خوشنودی کے لیے اپنی تباہی و بربادی کی داستان لکھ دیں اور معاملے کو معقولیت کی طرف نہ لے جائے۔
اب حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے ترجمان جناب نعیم الحق کے مطابق رائیونڈ جلسے میں 5 لاکھ شرکا ء موجود تھے جن میں ایک سے ڈیڈھ لاکھ وہ تھے جو رش یا گاڑیوں کے باعث جلسہ گاہ تک نہیں پہنچ سکے یقیناً ً شرکاء کی تعداد اتنی نہیں تھی مگر پھر بھی متاثر کن تھی لیکن حیرت انگیز یہ ہے کہ جس دن سے رائیونڈ احتجاج ہوا ہے بعض صحافی حضرات ہررات کرسیاں اور جلسے کے شرکاء کو گننے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض برسر اقتدار اور بر سرپیکارجماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ محفل جماتے ہیں جس میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عمران خان ایسے وقت میں جبکہ بھارتی جارحیت عروج پر ہے اور کشمیری بھارتی ظلم و بر بریت کا شب و روز نشانہ بن رہے ہیں ایسے سنگین حالات میں وزیراعظم بننے کا خواب پورا کرنے کے لیے پاگل ہوئے جا رہے ہیں اور ایسے پھندے تیار کر رہے ہیں جو کہ میاں صاحب اور صرف ان کے گھر والوں کے ہی ناپ کے ہوں جبکہ سب چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر کرپشن کے حوالے سے اٹھنے والے شور کا حل نکلے یہاں یہ مزحکہ خیز ہے کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے یہی سب چاہتے ہیں کہ کرپشن کا حل ہومگر اس شرط پر کہ 1947 سے آجانے والی کرپشن کا حل نکلے المیہ تو یہ ہے کہ ٹاک شوز بھی ہوتے ہیں کالمز بھی لکھے جاتے ہیں۔
طنزو مزاح کے پروگرامز میں کہنے کو حالات حاضرہ کا پورسٹ مارٹم بھی کیا جاتا ہے لیکن بیشتر اوقات انہی پرانے اور فرسودہ تصورات اور حالات کو زیر بحث لایا جاتا ہے جن کا اب کوئی وجود باقی نہیں بلکہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے ملک و قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اور اسی طرح انہی چیزوں سے قوم کو ڈرایا جاتا ہے جو کہ وقتی خوف کے بت ہیں تاکہ بعض نئے اور حقیقی خطرات جو نئی شکل میں پیدا ہو گئے ہیں ان سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے حالانکہ موجودہ حالات نے سب کو اتنا با شعور کر دیا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ ان میں سے بیشتر لوگ صرف رائے عامہ ہموار کرنے اور حکمران جماعت کو پا کباز ثابت کرنے کا کام سرانجام دیتے ہیں اور مفادات میںحق و باطل کا فرق بھول چکے ہیں یہ سسٹم اور نظام بچائو کا نعرہ لگانے والے درحقیقت مفاد بچائو پر عمل پیرا ہیں ایسے میں عوام کو خود سوچنا ہو گا اور آگے بڑھنا ہوگا اگر واقعی کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔
کبھی خواہش سے نہیں گرتے ہیں پھل جھولی میں وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو برا کہنے سے اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا