اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی آڈٹ نے بتایا کہ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے فنڈ سے سینتیس ارب روپے پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کو ملے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین بینچ نے کیس کی سماعت کررہا ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مقف اختیار کیا۔
قومی خزانے کی رقم قومی مجموعی فنڈ اور عوامی اکانٹ کی مد میں رکھی جاتی ہیں۔ مجموعی فنڈ سے رقم کا استعمال قومی اسمبلی کی منظوری سے ہوتا ہے۔ حکومت قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رقوم کے استعمال کی مجاز نہیں۔ گزشتہ بجٹ میں وزیراعظم کا صوابدیدی ترقیاتی فنڈ بائیس ارب روپے رکھا گیا۔
بعد میں یہ رقم بڑھ کر باون ارب روپے تک جا پہنچی۔ ڈی جی آڈٹ ملک منظور نے بتایا کہ راجا پرویز اشرف کے فنڈ سے سینتیس ارب پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کو ملے۔ صوابدیدی فنڈ کی تقسیم میں منصوبہ بندی کمیشن کی گائیڈ لائن کی پیروی نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ق لیگ کو 7 ارب 80کروڑ روپے دیے گئے۔ ایم کیو ایم کو 1 ارب 90کروڑ روپے دیے گئے۔
اے این پی کو 1 ارب 70 کروڑ روپے دیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپرا قواعد گڑ بڑ روکنے کیلئے ہیں۔ پلاننگ ڈویژن بھی اس کا پابند ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ صوابدیدی اختیارات کو بھی ایک نظام کے تحت استعمال کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ سابق وزیراعظم نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے وقت ان فیصلوں کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ کابینہ ڈویژن کے مطالبات زر میں رکھے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز آف بزنس کے تحت ترقیاتی کام کابینہ ڈویژن کی ذمہ داری نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کا کام نالیاں اور فت پاتھ بنانا نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلدیاتی امور صوبوں کو منتقل کئے جا چکے ہیں۔ وفاقی حکومت صوبوں پر اعتماد کرے اور یہ معاملہ ان پر چھوڑ دے۔ متعدد بار کہہ چکے ہیں بلدیاتی ادارے فعال بنانے کیلئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔