تحریر : پروفیسر رفعت 1985 ء میں وجود میں آنے والی سارک تنظیم جن مقاصد کے لیے قائم کی گئی، اُن میں تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اورنہ آئندہ ہونے کی توقع۔ سارک کانفرنس کا بنیادی مقصد تو سارک ممالک ( پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور افغانستان) کو ایک دوسرے کے قریب تر لانا تھا کیونکہ اِن ممالک کے عوام کے رہن سہن، رسم ورواج، تہذیب وتمدن اور معاشرتی سوچ میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔
تاریخ کامطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اِن ممالک کے درمیان نہ صرف گہرے تاریخی رشتے ہیں بلکہ تاریخی لحاظ سے یہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے بھی ہیں ۔ بَدقسمتی سے علاقے کا چودھری بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت نے ہمیشہ اپنی چودھراہٹ جمانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ مقاصد حل نہ ہوسکے جن کے لیے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کی دشمنی ہرکسی پر عیاں ہے ۔ وہ دامے ،درہمے ، قدمے ، سخنے ،ہر لحاظ سے ہمہ وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہتاہے۔اِس مخاصمت کی بنیاد رکھنے والے انگریز تھے جنہوں نے برّ ِ صغیر میں ”لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت کانگرس کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان کے گورنر جنرل نار کوٹیس آف ڈفرن اور اُس کی اہلیہ ایوا کی خواہش پر عمل میں آیا۔
لارڈ ڈفرن نے ایک ریٹائرڈ سویلین آفیسر آکٹوین ہوم کو حکم دیا کہ وہ تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی مدد سے انڈین نیشنل کانگرس کے نام سے ایک جماعت تشکیل دے ۔ مسٹر ہوم نے ٢٨ دسمبر ١٨٨٥ء کو مسٹر ڈبلیو سی بینر جی کے زیرِ صدارت انڈین نیشنل کانگرس کے پہلے اجلاس کا اہتمام کیا ۔ کانگرس کے صدر مسٹر بینرجی نے اِس اَمر کا اعتراف کیا کہ لاڈ ڈفرن نے مسٹر ہوم سے کہا تھا کہ جب تک وہ ہندوستان میں خدمات سَرانجام دے رہا ہے اُس کا نام سامنے نہ آنے پائے۔
India with Pakistan
برّ ِصغیر کے انگریز حکمرانوںنے ایک اور خباثت یہ کی کہ تقسیمِ ہند کے موقعے پر جان بوجھ کر ایسی پالیسی بنائی کہ برّ ِصغیر میںامن کا خواب ادھوراہی رہے ۔ ریڈکلف نے عین موقعے پرمشرقی پنجاب کوبھارت کا حصّہ قرار دے دیا جس میں گروداس پور ، امرتسر ، فیروزپور اورجالندھر جیسے اضلاع شامل تھے ۔ آخری وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بٹن کا مقصد یہ تھاکہ بھارت کو 70 فیصد آبادی رکھنے والے کشمیر تک رسائی دی جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازع برقرار رہے ۔ انگریز اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اورلَگ بھگ 70 سال گزرنے کے باوجود کشمیر تاحال متنازع ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین خون ریز جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔ اب تو عالم یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی قوتیں ہیں اور برّ ِصغیر پاک وہند دنیا کا ایساخطرناک ترین خِطّہ قرار دیا جاچکا ہے جس پر ایٹمی جنگ کے خطرے کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے ۔ اگر خدانخواستہ یہ جنگ دانستہ ، نادانستہ یا کسی غلط فہمی کی بنا پر چھِڑ گئی توجنوبی ایشیاء میں بسنے والی لَگ بھگ 2 ارب آبادی ،(جوپوری دنیاکا ایک تہائی ہے) نیست ونابود ہوجائے گی ۔ ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہونے کے باوجود بھی بھارت کواِس کا احساس ہے نہ ادراک ۔ اُسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی 20 کروڑ آبادی کے مقابلے میں اُس کی آبادی ایک اَرب بیس کروڑ ہے اور پاکستان کے پاس ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے والے ایسے ایٹمی میزائل موجود ہیں جو بھارت کے آخری کونے کے آخری شہر تک رسائی رکھتے ہیں ۔ اگر ایٹمی جنگ چھڑی تو پھر کسی کی بھی ”داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں” ۔یہ شایدجنوبی ایشیاکی بدقسمتی ہے کہ اِس ہولناکی کااِحساس نریندرمودی کو ہے ، نہ سشماسراج کو اور بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کو تو ہرگِز نہیں۔
اسلام آباد میں ساتویں سارک وزرائے داخلہ کانفرنس اپنے تیسرے دَور کے بعد ختم ہوگئی۔ کانفرنس کی ابتداء سے آخری لمحات تک پاکستانی وزیرِداخلہ چادھری نثارعلی خاںاور بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کے درمیان سَرد مہری کی فضاء قائم رہی اور رسمی مسکراہٹوں تک کابھی تبادلہ نہیں ہوا ۔راج ناتھ سنگھ نے تو پاکستان آنے سے پہلے ہی واشگاف الفاظ میں کہہ دیاتھا کہ وہ چودھری نثارصاحب سے ملاقات نہیں کریں گے اور چودھری نثار نے بھی جواباََکہہ دیا کہ اُنہیں بھی راج ناتھ سنگھ سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔
Rajnath Singh
وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی طرف سے برہان وانی کو شہید کہنا بھارتیوں کے ماتھوں پر بَل ڈال گیا اوراُن کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے ، جس کا اظہار راج ناتھ نے یہ کہہ کر کیا”کسی ایک ملک کا دہشت گرد دوسرے کے لیے شہید نہیں بننا چاہیے”۔ سیکرٹری داخلہ عارف احمدخاں نے بھارتی مٔوقف کاجواب دیتے ہوئے کہا ”دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد میں بہت فرق ہے ۔اقوامِ متحدہ کے تحت کشمیری عوام کوآزادی کی جنگ کی حمایت حاصل ہے ۔ اُن کا معاملہ سلامتی کونسل میں زیرِ التوا ہے ۔ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا اُن کا حق ہے اوردنیا میں کوئی بھی اِس حق کونہیں چھین سکتا۔
سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کے ورکنگ سیشن میں بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے نمائندوںنے مشترکہ طور پر پاکستان مخالف باتیں کیں ۔راج ناتھ سنگھ نے کہاکہ دہشت گردانہ حملوں کی مذمت ہی کافی نہیں ، اچھے اور بُرے دہشت گردوںکے درمیان فرق گمراہ کُن ہے ۔دہشت گردی کی حمایت یا حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ، خواہ وہ ریاستی عناصر ہوں یا غیرریاستی عناصر ۔ یہ اَمر یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی ریاست دہشت گردی کو سراہے ، نہ اِس کی سرپرستی کرے ۔ کسی بھی طرح کے حالات میں دہشت گردوںکو شہید قرار نہ دیاجائے ۔ جو دہشت گردوں کو شہید قراردیتے ہیں ، اُن کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا محفوظ ٹھکانے فراہم کرتے ہیں ، اُن کو بھی تنہا کرنا ہوگا ۔ راج ناتھ کی اِس تقریر کے فوری بعد چودھری نثارعلی خاںنے اعلان کیاکہ وہ کچھ دیر کے لیے کانفرنس کی صدارت چھوڑ رہے ہیں ۔ کرسیٔ صدارت چھوڑکر اپنی نشست پر آنے کے بعدچودھری نثار نے راج ناتھ سنگھ کوایسا کرارا جواب دیاکہ وہ کانفرنس درمیان ہی میںچھوڑ کر بھارت رفوچکر ہو گئے۔
چودھری صاحب نے کہاکہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے ۔ معصوم بچوںاور شہریوں پر وحشیانہ تشدد دہشت گردی ہے ۔ پاکستان نے کبھی بھی اچھے اوربُرے طالبان میںفرق نہیں کیا ، ایسے عناصرکے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہورہی ہے ۔ کوئی ملک دہشت گردی کی آڑ میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کی کوشش نہ کرے ۔ پاکستان میں دہشت گردی سرحدپار سے ہورہی ہے ۔ آرمی پبلک سکول پشاور ، چارسدہ دھماکے اور گلشن اقبال پارک جیسے واقعات دُنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میںپوری ڈھٹائی سے مداخلت کی جارہی ہے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذمہ داروںکو کٹہرے میں نہیں لایا جارہا ۔ چودھری نثارکے اِس مُنہ توڑ جواب کے بعد راج ناتھ سنگھ اپنی نشست سے اُٹھے اور لَنچ کیے بغیرہی کانفرنس کے خاتمے سے لَگ بھگ چار گھنٹے پہلے ہی بھارت روانہ ہو گئے۔