رکشہ تین پہیوں پر مشتمل سواری ہے جو ایک بندہ چلاتا ہے اور سواریاں اٹھا تا ہے۔رکشہ ایجاد ہونے سے پہلے لوگ سائیکل رکشہ میں سفر کیا کرتے تھے اور رکشہ بھی انہی سائیکل رکشہ کو دیکھ کر بنایا گیا ہے۔رکشہ لوگوں کے لئے ایک مفید سواری ہے جو سائیکل رکشہ سے زیادہ آرام دہ اور تیز ہے۔٩١ ویں صدی میں رکشہ ایشین ممالک میں بھی مشہور ہوا۔اورمردوں کے روزگار کے لئے مفید ثابت ہوا۔پاکستان میں رکشہ لاہور میں بنایا جاتا ہے۔اور جب سے رکشہ بنا ہے تب سے لے کر اب تک رکشے میں بہت بدلاؤ آگیا ہے پہلے رکشہ پیٹرول پر چلا کرتا تھا اس کے بعد ایل پی جی رکشہ چلا اور اب اس کے بعد سی این جی رکشہ چل رہا ہے۔
رکشے کو سی این جی رکشے میں منتقل کر کے ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس سے ماحول میں آلودگی میں کمی آئے گیاور پیٹرول والے پرانے ماڈل کے رکشے بہت دھواں خارج کرتے ہیں جس سے ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ سی این جی رکشہ کچھ حد تک پیٹرول رکشہ سے بڑا ہوتا ہے اور آرام دہ بھی ہوتا ہے۔رکشے کی قیمتوں میں پچھلے بیس سالوں میں پانچ سو گناہاضافہ ہوا ہے۔اگر دیکھا جائے تو آج کل رکشہ مہنگائی کے سبب مہنگا معلوم ہوتا ہے اور بہت سے لوگ رکشے کی سواری کو برداشت نہیںکرپارہے ہیں ۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ رکشے سے ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہیں سب سے اہم بچوں کا اسکول کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اس کے علاوہ سامان لانا لے جانا بھی رکشے میں باآسانی ہوجاتا ہے۔لاہورمیں ٹیکسی کی سروس نہیں ہیں تو جن لوگوں کے پاس اپنی سواری نہیں ہے تو وہ لوگ رکشے سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور رکشہ ان کی آمدورفت کے ساتھ ساتھ انکے سامان کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچادیتاہے۔قریب جانا ہو یا دور رکشہ ہر جگہ مفید ثابت ہوتا ہے۔اس میں باآسانی اپنے سامان کے ساتھ جایا جا سکتا ہے۔رکشہ عوام کے لئے تو مفید لیکن رکشہ ڈرائیورز کے مسائل میں حالیہ مہنگائی کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ٹریفک وارڈن کیجانب سے ناجائز چالان،پارکنگ سٹینڈ کا نہ ہو ،ایل پی جی کا مہنگا ہونا اور ایل پی جی کے خلاف آپریشن یہ ان کے بڑے مسائل میں سے چند ہیں۔
سٹی ٹریفک پولیس کا اکیلامحکمہ ٹریفک پولیس کے بہاؤ اور روانی میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بڑھتی ہوئی ٹریفک تجاوزات کی بھرمار اور دیگر مسائل کے باعث ٹی ایم اے اور دیگر محکموں کو مل کر ” کمپیٹیشن” کے طور پر کارروائی کرنا ہو گی۔ جب تک پلازوں، مارکیٹوں اور دیگر کمرشل مقامات پر پارکنگ اسٹینڈز قائم نہیں کئے جاتے ہیں اور ایسی مارکیٹیں اور کمرشل پلازے جہاں پارکنگ کی جگہ پر دکانیں وغیرہ تعمیر کی گئی ہیں ان کی گرا کر پارکنگ کی جگہ کو واگزار کروایا جائے۔شہر کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 58 فیصد نوجوان بے روزگاری کے باعث رکشہ چلا کر روزی کمانے پر مجبور ہیں۔ ایک سروئے کے دوران دو لاکھ کے قریب چنگ چی رکشہ اور شاہدرہ میں واقع مختلف کارخانوں میں روزانہ کی بنیاد پر 50 سے 60 نئے چنگ چی رکشے تیار ہونے کی وجہ سے چنگ رکشہ کی بہتات بھی ٹریفک کے بڑھتے بہاؤ اور حادثات میں اضافہ کی ایک سب سے بڑی وجہ ہے۔گزشتہ دنوں ملی رکشہ ڈرائیور یونین کے زیر اہتمام ریلوے سٹیشن سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی ۔
ریلی کی قیادت ملی لیبرفیڈریشن کے سیکرٹری جنرل احسان احمد چوہدری، صدر پنجاب ملی رکشہ یونین رانا شمشاد،سیکرٹری جنرل پنجاب ملی رکشہ یونین شیخ محمد نعیم،ملی لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری نشرواشاعت محمد عاصم و دیگر نے کی۔ریلی میں بڑی تعداد میں رکشہ ڈرائیورز شریک ہوئے جو اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے رہے،ریلی حاجی کیمپ،پولیس لائن سے ہوتی ہوئی شملہ پہاڑی پہنچی جہاں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ریلی کے شرکاء سے ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم رکشہ یونین کے مطالبات کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ یہ صرف اعلان نہیں ہمارا عمل بتائے گا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
غازی آباد کے رکشہ ڈرائیور کی بیوہ کی کفالت کریں گے۔ رکشہ والوں کی وجہ سے ہماری راتیں بھی دنوں کی طرح ہیں۔ دوسرے شہروں سے آنے والوں کو اپنی منزل تک پہنچنے کی فکر نہیں ہوتی۔رکشہ ڈرائیورزپر مشقت زندگی گزار رہے ہیں ٹھٹھرتی رات میں جب سب سو رہے ہوتے ہیں رکشہ ڈرائیورزق حلال کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں اور یقین دہانی کرواتے ہیں کہ آپ کے مسائل حل کروانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اگراسلام آباد تک رسائی کرنی پڑی تو بھی آپ کے حقوق کے لیے جائیں گے اورملکر وطن عزیز کی خدمت کریں گے۔ پاکستان اللہ کا انعام ہے اس کی تعمیر و ترقی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ حکومت ایسی پالیسیاں تشکیل دے کہ مزدور خود کشی کی طرف نہ جائے۔انہیںباوقار روزگار ملے۔ مشکل حالات میں بھی حکمران غریب پروری کریں یہ ان پر فرض ہے۔
ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جس سے مہنگائی قابو میں آئے۔مہنگائی کا مگر مچھ قوم کو بے چینی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ملی لیبر فیڈریشن کے مرکزی صدر ایس ڈی ثاقب نے کہا کہ اتحاد میں طاقت ہوتی ہے اگر ہم اپنے مطالبات کے لئے ملکر تحریک چلائیں گے تو ہمیں کامیابی ملے گی۔ملی لیبر فیڈریشن رکشہ یونین کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور انکی جدوجہد میں شانہ بشانہ رہے گی۔ملی لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل احسان احمد چوہدری،چیئرمین ملی لیبر فیڈریشن لاہور اسلم خان،رانا شمشاد،شیخ محمد نعیم نے کہا کہ رکشوں کو پارکنگ سٹینڈ کی سہولت مہیا کی جائے۔کینٹ ڈیفنس میں گیس والے رکشوں پر پابندی ختم کی جائے۔ایل پی جی گیس چلانے والے رکشہ ڈرائیوروں کو تنگ نہ کیا جائے۔ایل پی جی گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے، پارکنگ کی آڑ میں ہونے والی بھتہ خوری بند کی جائے۔ایل ٹی سی اور ٹریفک وارڈن ٹارگٹ چالان بند کریں۔
روٹ پر مٹ پر سابقہ جرمانہ فیس معاف کرتے ہوئے روٹ پرمٹ جاری کیے جائیں۔محمد عقیل چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ رکشہ یونین کو اگر کوئی ناجائز تنگ کرتا ہے تو ہم مفت قانونی امداد فراہم کریں گے۔محمد ایوب ٹیپو،رانا محمد ارشد،محمد رمضان نے کہا کہ رکشہ ڈرائیور کا کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ صرف علاقے دئیے جاتے ہیں۔ملی مسلم لیگ کے مشکور ہیں کہ یہ ہمارے لیے نکلے۔ گیس مہنگی ہو گئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے۔ ہم بھی پاکستانی ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں ہمارے مسائل حل کیے جائیں۔ ایل پی جی خطرناک ہے تو مکمل بند کی جائے صرف رکشہ ڈرائیور کو کیوں نہیں دی جاتی۔ رکشہ ڈرائیورز کے مطالبات کی منظوری کے لئے اسلام آباد بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔رزق حلال کی تلاش میں سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں نکلنے والوں کو ان کا حق دیا جائے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی پر چیف جسٹس آف پاکستان ایک سوموٹو لیں تا کہ غریب کے گھر کا چولہا جل سکے۔حکومت ایسی پالیسیاں تشکیل دے جس سے مزدور خود کشی کی بجائے باعزت زندگی بسر کر سکے۔