اِس وقت ملک میں الیکٹرانک میڈیا پر خصوصاً ایک ہی خبر ہے اور وہ اسلام آباد میں آزادی مارچ اور تحریک منہاج القرآن کا لانگ مراچ ،عمران خان کے ساتھ کار کن بڑی تعداد جبکہ جناب شیخ الاسلام طاہر القادری کے ساتھ کار نہیں بلکہ بڑی اکثریت میں اُس کے پیرو کار ہیں ،کارکنو ں اور پیروکاروں میں فرق ہے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اپنے منطقی انجام کی طر ف بڑھ رہے ہیں مگر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہو ،نتیجہ کیا ہوگا نون لیگ کی اپنی حکمت عملی ہے اور زرداری صاحب کو بلایا گیا مگر زرداری کا کوئی فارمولا کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا ،١٤ معصوم انسانوں کے قتل پر میاں نواز نے معذرت کرلی ہے ،یعنی قصاص نہیں محض معذرت پر مک مکا کیسے ہو گا ،مگر یہ کیو ںکر ممکن ہے۔
جناب قادری صاحب اپنے شہداء کے خون پر کوئی سمجھوتہ کر لیں ،رات کارکنوں سے خطاب میں انہو ں انتہائی سخت لہجہ میں واضح کیا کہ مجھے حق سے کوئی نہیں ہٹا سکتا مطمئین رہیںشہداء کے خون کا سودا نہیں ہوگا ہمارے مطالبات پورے ہونگے کارکن ڈٹے رہیں حق ملے جیسے بھی ہو اگر حکومت نے دھوکا کیا تو اِس دھرنے میں پہلی شہادت میری ہوگی اگر مجھے شہید کیا گیا تو یہاں ہزاروں شہادتیں ہونگی اور پارلیمنٹ شہداء کا قبرستان بن جائے گا ،ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی ایف آئی آر اُن کے خون کا بدلہ ….. دوسری طرف خاں صاحب نے بھی لچک کا مظاہرہ کیا محض ٣٠ دن تک میاں صاحب وزارت عظمےٰ سے الگ ہو جائیںاُنکی موجودگی میں شفاف تحقیقات نہیںہوسکتی، خاں صاحب کے لئے بند گلی سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔
حکمران تووہی ہونگے صرف میاں صاحب منظر سے پس منظر میں تاریں ہلائیں گے اچھا موقع ہے دونوں کے لئے،مگر جناب قادری کے لئے کوئی اسان شاٹ کٹ نہیں وہاں تو …..انہی کالموں میںلکھ چکا ہوں کہ حالات اس ڈگر پر ہیں کہ فوج نہ چاہتے ہوئے بھی امن وامان کی بگڑتی صورت کے پیش نظر مداخلت پر مجبور ہو جائیگی اور فوج پر قطعن الزام بھی نہیں آئے گا ،آج تو الطاف بھائی نے بھی اسی خدشہ کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کے حکم سے ایسا محسوس ہوتا ہے ہمارے جج صاحبان ملک کی موجودہ صورت حال سے بے خبر ہیں کیوں اور کن حالات میں جناب قادری نے مارچ اور دھرنا دیا ،تب بھی پنجاب حکومت نے حالات کو سختی سے بگاڑ دیا ہے اور آج سپریم کورٹ کے حکم پر کہ شاہراہ دستور خالی کی جائے جہاں قادری کا دھرنا ہے۔
Court
اب عدالت کے حکم کی بجا آوری کے لئے لا محالہ حکومت سختی کرے گی یا سختی پر مجبور ہوگی تو یہ سختی ہی نہیں بلکہ لاشیں بھی گریں گی اور پھر …..زمہ دار کون ہوگا اس کا فیصلہ کل کا مورخ ہی کرے گا…مگر یہ حالات دیکھتے ہوئے بھی میاں برادران کا رویہ سخت ہے خاں صاحب کہتے ہیں میا ںصاحب سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں وزیرآعظم اپنی انا کے خول اور خاں صاحب اپنی انا میں سرمست ،اس امتحان میں سرخ رو ہو رہے ہیں چاروں طرف کی گیندیں حکومتی کورٹ میں کھیل رہی ہیں۔
یہ ارٹیکل ٢٦ ،اگست کو صبح مکمل کرکے بھیجنا تھا ،مگر کیا کیا جائے بجلی حسب معمول صبح ٦ بجے گئی ٨بجے واپسی تھی مگر نہ آئی تو فون کرکے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ٢ بجے ؤآئے گی قہر درویش جر جاں درویش دن دو بجے کا انتظار کیا ….میاں صاحب کہتے ہیں اگر میں مستعفی ہوأتو ملک بحرنوں کا شکار ہو گا ،لیکن یہ علم شائد اُنہیں نہیں کہ یہ بجلی کابحران ہاں تو ٢،١٥ پر بجلی نے جھلک دکھائی اور پھر مسلسل ٤،١٥ بجے تک یہ آنکھ مچولی ہوتی رہی،کاش ایسا نظام ہوکے کہ میں کم از کم وزیر بجلی و پانی ہی سے پوچھ کر …..مگر اب بھی کسی کو شرم مگر آتی نہیں ، انہیں تو اقتدار چاہئیے ،کہ بجلی بل کے زریعہ عوام کو لوٹا جائے۔
موجودہ کھیل میں حکمرانوں اور سیاستدانو ں کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں …. ،میاں شہباز شریف چین کے بڑے چکر لگاتے ہیں آج کل پھر چین تو کم از کم وہاں سے سستی ببجلی لے آئیں ،آئندہ یہی غریب کے ووٹ کی قیمت ہوگی، ایک وقت چین کی پیش کش بھی تھی جو….بات دوسری طرف نکل گئی کیا کیا جائے ،اب گیند حکومتی کورٹ میں آصف علی زرداری بڑی جلدی میں دوبئی سے بلوائے گئے کہ میا صاحب کی مشکل حل کرنے میںکامیاب ہونگے مگر وہی ان کی گھسی پٹی باتیں ،سیاسی درجہ حرارت کم ہونے میں نہیں آ رہا،اور پھر ن لیگ نے یہ حل نکالا کہ شہر شہر ریلیاں نکالی جائیں حمزہ شہباز شریف ریلیوں سے خطاب کرنے لگے تو ٹمپریچر اور بڑھنے لگا، عدالت عظمےٰ نے حکم دیا کہ شاہراہ دستور فوری خالی کی جائے دھرنا والے کسی اور سمت جائے۔
اب عدالت عظمےٰ کے حکم کی تعمیل کرانا یہ کام حکومت کا تھا وزیر داخلہ نے بڑک بھی لگا ئی مگر شکر ہے ایکشن میں نہیں آئے ورنہ تو حکم جلتی پر تیل تھا ، لاہور میں سیشن عدالت کے حکم کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدہ درج کیا جائے ،ستین وزراء نے عدالت عالیہ میں چیلنج کیا ، عدالت عالیہ میں دائر اپیل خارج کر دی گئی اور سیشن جج کا فیصلہ بحال فوری مقدمہ کے اندراج کا حکم ہے جس سے میاں برادراں کی مشکلات میںدو چند اضا فہ ہوأ ہے ،اب میاں برادران کے لئے ایک ہی راستہ ہے۔
اب ریلیوں کا وقت نہیں بلکہ ان حالات میں مزید حدت آئے گی جس سے مفاہمت کی تمام کوششوں پر منفی اثر ہوگا …. اب وقت ہے میاں نواز شریف،وزیر آعظم نہیں کسی پروٹوکول کے بغیر چھوٹے بن کر تنہا جناب قادری صاحب سے ملیںمجھے یقین ہے کہ حدت میں کمی آئے گی ،اور بگڑی بات سنور جائے گی ،ورنہ تو حالات جس ڈگر پر ہیں یہی کہا جا سکتا ہے ،برق گلشن کی نگہ باں ہے خدا خیر کرے۔