بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) ایودھیا کے رہائشی مسلمانوں نے رام مندر تعمیر کرنے والے ٹرسٹ کے نام اپنے خط میں بابری مسجد سے متصل مسلمانوں کے قبرستان میں مندر نہ تعمیر کرنے گزارش کی ہے۔
چند روز قبل ہی مرکزی حکومت نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ کا اعلان کیا تھا اور ایودھیا کے رہائشی مسلمانوں نے اسی ٹرسٹ کے نام اپنے خط میں بابری مسجد کے آس پاس مسلمانوں کے قبرستان میں مندر نہ تعمیر کرنے گزارش کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ چونکہ مسجد کے آس پاس پانچ ایکڑ زمین پر قبرستان تھا اس لیے نئے مندر کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے اور ہندو مکتب فکر ’سناتن دھرم‘ کے اس عقیدے کے مطابق کہ قبرستان پر مندر نہیں تعمیر کیا جا سکتا اتنی جگہ چھوڑ کر اسے تعمیر کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد حکومت نے جو67 ایکڑ زمین اپنی تحویل میں لی تھی اس سب پر مندر کی تعمیر سے مسلمانوں کی مکمل بے دخلی ہوتی ہے جو قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ خط میں لکھا گيا ہے، ’’سناتن دھرم کی مذہبی کتابوں کی بنیاد پر آپ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بھگوان رام کے مندر کی بنیاد مسلمانوں کے قبرستان پر ہونی چاہیے؟ ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اس بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘
27 برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔
ایودھیا کے مسلمانوں کے لیے یہ خط سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد نے لکھا ہے۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ منہدم شدہ بابری مسجد سے متصل ’گنج شہیداں‘ نامی قبرستان ہے جس میں سن 1885 کے فسادات میں ہلاک ہونے والے 75 مسلمان دفن ہیں اور فیض آباد کے سرکاری ریکارڈ میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چونکہ 1949ء سے وہ جگہ متنازع ہے اس لیے وہاں تدفین نہیں ہوتی اور اس کی ہیئت بھی پوری طرح سے بدل چکی ہے۔
ایم آر شمشاد کے مطابق، ’’اس مقدمے میں رام مندر کے فریق نے خود یہ بات کہی تھی کہ چونکہ مسجد کے آس پاس پانچ ایکڑ زمین پر قبرستان ہے اس لیے اسلامی نکتہ نظر سے وہاں مسجد کا ہونا درست نہیں ہے۔ گر چہ اب وہاں مردے دفن نہیں کیے جاتے لیکن ہے تو وہ قبرستان ہی اور ہم نے لکھا ہے کہ چونکہ رام مندر کا فریق خود تسلیم کرتا ہے کہ وہاں قبرستان ہے، جب مندر کی تعمیر شروع ہو تو اس پہلو پر غور ہونا چاہیے کہ کیا مسلمانوں کے قبرستان پر مندر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب ایودھیا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انوج جھا نے اس خط کے جواب میں کہا ہے کہ جو زمین رام مندر کے ٹرسٹ کے حوالے کی گئی ہے اس میں کہیں بھی قبرستان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’رام جنم بھومی کے 76 ایکڑ کیمپس میں فی الوقت کوئی قبرستان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 67 ایکڑ زمین مرکز کے حوالے کی تھی اور ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔‘‘
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔
ایودھیا کے ڈی ایم بھی رام مندر ٹرسٹ کا حصہ ہیں تاہم وکیل ایم آر شمشاد نے ڈی ایم کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری ریکارڈ میں درج ہے کہ بابری مسجد کے آس پاس کی چار سے چھ ایکڑ تک کی زمین قبرستان ہے اور یہ زمین بھی اسی 67 ایکڑ میں شامل ہے۔
27 برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم گزشتہ برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔
حکومت نے مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ مسلم فریق بابری مسجد کا ملبہ حاصل کرنے کے لیے ایک اور قانونی لڑائی لڑ رہا ہے۔