تحریر ریاض احمد ملک بوچھال کلاں قارئین آپ جب یہ الفاظ پڑھ رہے ہونگے رمضان المبارک ہم سے الوداع ہو چکا ہو گا رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے عبادات کا مہینہ ہوتا ہے جس میں تمام مسلمان اپنے لئے گناہوں کی مغفرت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور عبادات کا سلسلہ اس بابرکت مہینے میں جاری رکھتے ہیں اس مہنے میں جہاں لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں وہاں چھوٹی مگر بڑی باتوں کو بھول جاتے ہیں مساجد میں بیٹھ کر ہم علماء کرام کے واعظ تو سنتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کرتیش اس ماہ میں اعتکاف کا عمل بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اعتکاف کے بعد انسان اس طرح ہو جاتا ہے جس طرح نومولود بچہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام چھوٹے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اعتکاف کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان روزے،نماز اور نماز تراویح کا پابند ہو اس کے علاوہ اس کا کسی بھی رشتہ دار سے لا تعلق نہ ہونا یعنی ناراضگی کا نہ ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو کسی رشتہ دار سے تین دن ناراض رہا وہ مسلمانی سے بھی فارغ ہو گیا اس لئے ہمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات پر عمل بھی کرنا چایہے مگر ہم نے اس پر کتنا عمل کیا اس کو سوچنے کی ضرورت ہے اس بابرکت مہنے میں جہاں عبادات کا سلسلہ جاری ہوتا ہے ہمارے ہاں کریپشن مہنگائی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے میرے علم کے مطابق اس مہینے میں انتظامیہ بھی ناجائزمنافع خوروں کو کھولی چھٹی دے دیتے ہیں جس سے عوام بیچارے مہنگا ئی کی دلدل میں پھنس کر یہ مہنہ گرارتے جو ایک افسوس ناک عمل ہے لو نماز تو پڑھتے ہیں مگر اس کو گناہ نہیں سمجھتے کہ ناجائز طریقے سے مسلمانوں کو کیوں لوٹ رہے ہیں بلکہ اس کو تو اپنا فرض سمجھا جاتا کہ اپنی دولت کو ڈبل کیا جاتا ہے۔
اس ماہ میں حکومت کروڑوں روپے کی سبسٹڈی دے کے رمضان بازاروں کا اہتمام کرتی ہے کہ عوام کو اس مہنگائی سے نجات مل جائے مگر یہ رمضان بازار بھی کریپشن کے بے تاج بادشاہوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں یہاں محکمہ مال کے لوگ اے سی اور انتظامیہ کے دیگر اہلکار اس گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھو رہے ہوتے ہیں بلکہ نہا بھی رہے ہوتے ہیں یہاں عوام صرف میڈیا پر اعتماد کرتے ہوئے جب اپنے دکھڑے سناتے ہیں اور جب میڈیا کہ نمائندے اپنا فرض ادا کرنے نکلتے ہیں تو ان تو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان پر مقدمات بھی قائم کئے جاتے ہیں کیا حلکوت کا فرض نہیں ہوتا کہ ایک خبر اگر ایسی سامنے تی ہے تو اس کا نوٹس لیں اگر ایسا ایک واقع ہو جائے تو انتظامیہراہ پر جائے مگر یہاں تو پوری گنگا کا یہی حال ہے کہ کون کس کو پوچھے رمضان بازاروں میں مقامی دکانداروں کو بیٹھا دیا جاتا ہے غیر معیاری اشیاء وہ جیسے چاہیں عوام کو فروخت کریں کیونکہ وہ تو انتظامیہ کی چھتری تلے جو بیٹھے ہوتے ہیں جو دکاندار انتظامیہ کی بات نہیں مانتے اور اپنا کاروبار وہاں منتقل نہیں کرتے انتظامیہ ان پر جرمانے کر کے اپنے نمبر بناتی ہے۔
Ramadan Bazaar
اس رمضان بازار میں اگر مقامی دکانداروں اور ٹھیہ بانوں کو بٹھا کر فارمیلٹی پوری کی جاتی ہے تو وہ سبسٹڈی کہاں جاتی ہے ،،،،،؟حکومت کے اعلیٰ لوگ یا عدالت عظمیٰ اس کا نوٹد لے تو انژااللہ اگلے رمضان میں انتظامیہ اس قسم کی حرکت نہ کر سکے اب انظامیہ کے بعد پولیس بھی اس گنگا میں ڈبکیاں لگا رہی ہوتی ہے اس بابرکت مہنے میں پولیس نے قسم کھا رکھی ہوتی ہے کہ بغیر نذرانے کے کوئی کام نہیں کیا جائے گا جس کے لئے انہیں افسران کی بھی شائد اشیرباد حاصل ہوتی ہے جس کا ثبوت یہ کافی ہے کہ اس مہنے میں پولیس اہلکار کھلے دل سے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھتا نہیں میں 26رمضان کا زکر اس لئے کرنا چاہوں گا میں نماز سے فارغ ہو کر گھر جارہا تھا تو ایک آدمی سے میرا سامنا ہوا جو پولیس چوکی سے آ رہا تھا میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے رشتہ دار الجھ پڑھے تو پولیس وہاں آ گئی اور میرے رشتہ دار لڑکے کو پکڑ کر لے آئی اور ا س پر موٹر سائیکل چوری کرنے کا مقدمہ قائم کر دیا۔ اس مقدمے کا کوئی مدعی نہیں مجھے کافی تکلیف کا سامنا ہوا میرا اپنا ایک کام تھا کام بھی ایک درخواست دینا تھا میرا ایک رکشہ تھا جسے نوسرباز ڈکار گئے تھے جب میں درخواست لے کربوچھال؛ کلاں پولیس چوکی پر گیا تو وہاں پر معمور محرر شہزاد نامی شخص نے میرے ساتھ جو سلوک کیا۔
جب میں پولیس چوکی کے گیٹ سے اندر داخل ہوا تو اس نے جو اداکاری کی مجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کون ہو اور کیسے یہاں آئے ہو اور کیون آئے ہو میں نے کہا کہ درخواست دینے آیا ہوں تو جناب نے فرمایا کہ اس درخواست میں کیا لکھا ہے۔ میں نے درخواست اس کو دیتے ہوئے کہا کہ پڑھ لو مگر وہ تو شائد یہ سمجھ رہا تھا کہ کوئی جانور پولیس چوکی پر آگیا ہو میں نے سمجھتے ہوئے کہ یہاں کوئی کام بھی پیسے کے بغیر ممکن نہیں میں نے اسے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جسے دیکھ کر وہ تھوڑا سا گھبرایا ضرور مگر پھر اوپر والوں کی آشیر باد نے اسے حوصلہ دیا اس سے قبل کہ وہ کوئی بات کرتا ایک اور پولیس اہلکار وہاں آ گیا اور یہ کہا کہ آپ تو ہمارے بھائی ہیں شام کو انچارج پولیس چوکی جو سو رہے تھے اٹھیں گے تو ہم ان سے آپ کی سفارشکریں گے وہ امید ہے کہ تماری درخواست ضرور رکھ لیں گے میرے اسرار پر اس نے درخواسے رکھ لی اور مجھے افطاری کے بعد آنے کا حکن صادر فرما دیا مگر ان کے رویہ کے احتجاج پر نہ میں پولیس چوکی گیا اور نہ ہی انہون نے میری درواسے جو بغیر نذرانے کے گئی تھی اس پر عمل کیا رمضان المبارکمیں ہماری حکومت ان باتوں کا نوٹس کیوں نہیں لیتی امید ہے اگر میرے یہ الفاظ ان کے گوش گزار ہوئے تو حکومت اس کا نوٹس لے گی
Riaz Ahmad Malik
تحریر ریاض احمد ملک بوچھال کلاں malikriaz 57@gmail. com riaz.malik48@yahoo.com 03348732994