تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ہر حکمران کی یہ دلی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نام اور فوٹو چمکتا دمکتا رہے اور لوگوں کے سامنے بار بار آتا رہے ان اوچھی حرکتوں سے ڈکٹیٹر جمہوری ہوں یا مارشلائی یہی سمجھتے ہیں کہ ایک دنیا ہے کہ ان کی شیدائی بن چکی ہے اور وہ عوام میں انتہائی پاپولر شخصیت ہیں اور نام نہاد اپوزیشنی یا دوسرے تنقید کرنے والے راہنمائوں کو تو عوام جانتی بوجھتی تک نہیںاس طرح اکثریتی ووٹ ہمیشہ انھیں ہی حاصل ہوں گے اس طرح آمرانہ ذہنیت کے لیڈران اندر ہی اندر خوش ہوتے اور راتوں کو مزید مقتدر رہنے کی خوابوں کی دنیا میں بسے رہتے ہیں۔
رمضان المبارک کے متبرک ماہ کے دوران سستے رمضان بازار ہر تحصیل کی سطح پر پنجاب حکومت نے لگوائے تحصیل ایڈمنسٹریشن و بلدیہ کا پورا عملہ اور متعلقہ تھانوں کی تقریباً آدھی نفری وہاں تعینات رہی وہاں کام کرنے والے حکومت کے چہیتے دوکانداروں کو سٹال لگانے کے لیے سہولتیں مہیا کی گئیںپورے صوبہ میں اربوں روپوں کی سبسڈی دینے کا کا اعلان کرکے اشیاء کی فروختگی کا اہتمام کیا گیا مگر شہباز شریف کی سستی روٹی سکیم اور یلو کیب کی طرح سارے سبسڈی کے مال کا تقریباً 2/3حصہ الم غلم اور خورد برد کر لیا گیالادین کرپٹ بیورو کریٹ ایسے سستے بازاروں کے اہتمام کرکے اس میں سے اپنا حصہ نکالنے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمہ قسم حکومتی ادوار بھگتائے ہوئے ہیں۔ضلعی و تحصیلی انتظامیہ کے افسران کی آنکھ مچولی اور نام نہاد چیکنگ دورہ کے دوران دکانوں کو خوب سجانااور گندی گلی پڑی سبزیاں اور فروٹ کا ایک طرف رکھ کر دکانوں پر اعلیٰ اشیاء کو ڈسپلے کرنا بخوبی آتا ہے۔
پھر جو بڑے آئیٹم تھے مثلاً آٹا چینی دالیں چاول مصالحہ جات مشروبات وغیرہ وہ تو سبھی تقریباً70فیصد پرائیویٹ دکانداروں کو بیچ ڈالے گئے اور جو منافع یا رعایت عوام الناس کو دی جانی مقرر تھی وہ خود ہی اپنی جیبوں میں ڈال لی گئی کہ آخر وہ سخت دھوپ میں اپنی خصوصی ملازمتوں کے کام کے علاوہ ایکسٹرا ڈیوٹیاں دے رہے تھے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور غریب عوام کے ہاتھ گلے سڑے فروٹ اور سبزیاں ہی آئیں اور کئی سبزیاں فروٹ توبازاروں میں بکنے والی اشیاء سے بھی زائد قیمت پر وہاں دستیاب کی گئی تھیں کہ جب زیادہ مال وہاں خود بیورو کریسی کے نمائندوں و تحصیل دار گرداور پٹواریوں اور بلدیہ کے ملازمین نے ہی خرید کر سجانا تھا تو اس میں روایت دنیا کے مطابق ا ن کا اپنا حصہ یا منافع نکالنا “بہت ضروری تھا” کہ عام طور پر جب کوئی چیز سرکاری دفاتر کے لیے خریدی جاتی ہے تو اس کے ٹینڈر سمجھ کر سرکاری سلسلے میں ہی لاکھوں کروڑوں کا گھپلا کر لیا جاتا ہے اور ہر شے بازار سے کئی گنا زائد قیمت پر خرید کی جاتی ہے کاغذوں کی ہیرا پھیریوں کے یہ کلرک ،اکائونٹنٹ اور کیشئیر وغیرہ خوب ماہر ہوتے ہیںسڑکیں بناتے ہوئے پتھر سیاہ سیال مادہ ( لُک وغیرہ) کھا پی جاتے ہیں۔توپھر یہ تو ٹھہری ہی کھانے پینے کی اشیاء ۔گوشت ،مشروبات، دالیں،چاول چینی آٹا وغیرہ بہت سستا بیچنے کے پرو گرام کا اعلان کیا گیا تھا مگر نصف سے زائد تو دکانداروں کے ہاں برائے فروخت موجود تھا کیا کسی جن بھوت نے وہاں پہنچا دیا تھا؟چینی وغیرہ بیچنے کا اہتمام فی کس 2کلو کا لفافہ تھا اور باقاعدہ شناختی کارڈکے اندراج پر ہی چینی مہیا کی جانی تھی مگر کیا ایسااہتمام کیا گیا؟کیا ایسے اندراجات چیک کئے گئے۔
راقم نے ایک سنٹر کا خود ملاحظہ کیا۔قیمتوں کی بابت معلومات حاصل کی گئیں آٹا اور چینی چاول خریدنے کے لیے اپنے بندے چھوڑے مگر سب کچھ ویسا ہی پایا جیسا کہ امید قوی تھی ۔سرکاری خزانے کو شیر مادر سمجھ کر سسر کاری اہلکار پی رہے تھے بس وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ان کے شہزاد گان ،متعلقہ وزیر ضلعی تحصیلی افسران متعلقہ ایم این اے ایم پی اے،بلدیہ کے چئیر مین وائس چئیر مین کے قد آدم فوٹوئوں کی شہر میں بہار تھی بالخصوص نام نہاد سستے بازار کے اردگرد بلاشبہ ایک سنٹر پر پانچ سات لاکھ کے بینر اشتہارات تو کم ازکم چسپاں کرنا ضروری خیال کیے گئے کہ مال مفت دل بے رحم ۔جو سبسڈی دی جانی تھی جس کے لیے سرکاری خزانہ سے اس مد میں رقوم نکلوائی گئی تھی وہ اس طرح پبلسٹی ،اخبارات و ٹی وی میں اشتہارات میں ضائع کردی گئیں ۔”گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی” خوب فوٹو سیشن رہے کسی بھی افسر کے دورہ پر ویڈیو کا اہتمام ضروری سمجھا گیا تاکہ اوپر ” نام نہا د خادم اعلیٰ ” کو اطلاع مل جائے کہ خوب دورے ہورہے ہیںاور ” سب اچھا ” جارہا ہے ۔ایکسپرٹ اور کرپٹ بیورو کریٹ ہمیشہ ہی حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایسے بازاروں اور میلے ٹھیلوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں تاکہ ایسے کاموں میں فرضی جمع تفریق کرکے لاکھوں روپوں کی دیہاڑیاں لگ سکیں ۔بیوقوف حکمران ہمیشہ سے ہی کان کے کچے ہوتے ہیں وہ اپنے فوٹوئوں اور بینروں کا اہتمام کروانے کے لیے یہ دھول بھی چاٹ جاتے ہیں ۔کہ ان کی مفت میں سرکاری خزانے سے ہی ” بلے بلے ” ہوتی رہتی ہے ۔پھر ذرا غور کیجیے کہ جن افسروں کے حکمران خود کرپشنوں میں ملوث ہوں وہ کیسے ایمانداری سے اپنے کام نمٹا سکتے ہیں۔
کنند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز ۔کبوتر باکبوتر باز با باز آخر سرے محل وکی لیکس سوئس اکائونٹس کے مالک ،پانامہ لیکس میں کھربوں روپوں کے والی وارثان ،یوسف گیلانی و راجہ رینٹل اور عمرانی نیازی لیکس کیا بھولے بادشاہ تھے ؟کہ اربوں کھربوں کما کر لکڑ ہضم پتھر ہضم کی طرح ڈکار گئے ان کا کچھ نہ بگاڑا جا سکا تو معمولی بیورو کریٹوں اور نچلے ملازمین کی چند لاکھوں کی ہیرا پھیری کرنے پر کوئی کیسے ان کا بال بیکا کر سکتا ہے۔