کیا خوشی ہے کہ رمضان آگیا ہے،وہ رمضان کہ جس کی برکتیں اور رحمیتں سیل رواں کی طرح بے قابو ہوتی ہیں ،اس سیل رواں سے نہ تو بچا جاتا ہے اور نہ اس کی لہروں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس میں غوطہ زن ہوا جاتا ہے اور رحمتوں کہ لہروں کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کے لیے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے، رحمتوں اور برکتوں کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے ہی یہ ماہ مقدس شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، آسمان کے دروازے سے مراد برکت کے دروازوں کا کھلنا ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان شروع ہوتے ہی ہر طرف اشیاء خوردونوش کی فروانی ہو جاتی ہے، موسمی پھلوں کی بہتات ہوتی ہے، کھجور جو پورا سال پتہ نہیں کہاں غائب ہوتی ہے رمضان میں جگہ جگہ میسر ہوتی ہے،دودھ دہی کی جتنی بکری اس ماہ میں ہوتی ہے کسی اور ماہ میں نہیں ہوتی، کپڑے اور جوتے کا کاروبار سب سے زیادہ اسی مہینے میں ہوتا ہے، غریب، امیر ہر گھر میں خوشحالی آتی ہے، اسی طرح تقریبا ہر چیز دوگنی ہوجاتی ہے مزید یہ کہ ہر شخص کی آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے، ان سب سے رمضان کی برکتیں روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہیں۔
حدیث کے اگلے الفاظ یہ ہیں کہ “جنت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور پورا مہینا ان میں سے ایک بھی بند نہیں رکھا جاتا ” ان الفاظ میں یہ واضح پیغام ہے کہ یہ مہینا جنت کمانے کا ہے، وہ جنت جو مسلمانوں کی منزل مراد اور ابدی قرار گاہ ہے، جس کے حصول کے لیے تمام عبادات کو بنیاد بنایا گیا ہے، جو نعمتوں سے بھرپور ہے، جس میں فواکہ، حور و غلمان اور سلسبیل و زنجبیل ہے، جس کا عرض دنیا وما فیہا سے زیادہ ہے، جس میں باغات ہیں اور ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، دودھ کی نہریں، شراب اور شہد کی نہریں ۔جس کا ایک ایک خیمہ ساٹھ ساٹھ میل لمبا ہے، جس کا لالچ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ دیا ہے، وہ جنت جس کا سب سے اونچا مقام “محمود ” ہے، جو کہ کائنات کی اعلی ترین ہستی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا ۔اس جنت کے دروازے رمضان میں فقط اس لیے کھولے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو بتا دیا جائے کہ ان کا ٹھکانہ یہی اور بس یہی ہے، اس کے سوا اور کہیں نہیں جانا ہے، لہذا اس ماہ مقدس میں مسلمان اس جنت کے حصول کے لیے تگ و دو کریں، دعائیں کریں، جدوجہد کریں بلکہ قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ” دوڑو، بھاگو، لپکو اس جنت کی جانب ۔ایک مقام میں ہے “کہ اس جنت کے حصول کے لیے آپس میں مسابقہ کرو، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، چنانچہ پورا رمضان اس جنت کے حصول کے لیے کوشاں رہنے کا نام ہی رمضان ہے،اور اس میں جنت کے دروازوں کا کھلنا رمضان کی برکت اور رحمت ہے۔
حدیث کے اگلے الفاظ یہ ہیں کہ” جہنم کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک بھی کھلا نہیں رکھا جاتا “اس میں بھی رمضان کے توسط سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اب تمہاری زندگی میں رمضان آگیا ہے، اب تم جہنم میں نہیں جا سکتے، جہنم کے دروازے بند کرنے کا پہلا اور آخری مقصد یہی ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی شخص کی زندگی میں رمضان آجائے اور اس کے باوجود وہ جہنم میں چلا جائے ۔وہ جہنم جس کی ہولناکی اور ہیبت ناکی کی مثل اور کوئی شے نہیں ہے، وہ جہنم جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، مطلب جتنے انسان اس میں ڈالتے جائیں گے اس کی آگ اتنی بھڑکتی جائے گی، وہ جہنم جس کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر گنا زیادہ تیز ہے، وہ جہنم جس کا بعض بعض کو کھا رہا ہے، وہ جہنم جس کی آگ کے نام سقر، ھاویہ، سعیر ہے اور جو چمڑوں کو جلا دینے اور دلوں تک پہنچنے والی ہے، وہ جہنم جو رہنے کا سب سے برا ٹھکانہ ہے، وہ جہنم جو سانس باہر پھینکتی ہے تو دنیا گرمی سے جھلسنے لگ پڑتی ہے اور سانس اندر کھینچتی ہے تو دنیا سردی سے ٹھٹھرنے لگ پڑتی ہے، وہ جہنم جس کی گہرائی ستر سال کی مسافت جتنی ہے اور طول و عرض کا تو حساب ہی نہیں ۔ایسی ہولناک جہنم کے دروازے بند ہوتے ہیں تو فقط رمضان المبارک کی بدولت، یہ رمضان کی برکتیں اور رحمتیں ہی تو ہیں۔
حدیث کے اگلے الفاظ یہ ہیں کہ” ہر سرکش شیطان اور شریر جن کو قید کردیا جاتا ہے”ایسا کر کے بھی مسلمانوں کو یہ واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ تمہارا ازلی وابدی دشمن سرکش شیطان زنجیروں میں جکڑ دیا گیا، لہذا اب تم نیکیاں کرنے کے لیے مکمل آزاد اور خود مختار ہو، تمہارے رستے کا سب سے بڑا کانٹا نکال دیا گیا ہے اور اٹکن ہٹا دی گئی ہے، اب تم شیطان کے وسوسوں، اس کی پھونکوں، بہکاووں اور تحریض سے پرے اور محفوظ ہو ،چنانچہ نیکیاں کرو، نمازیں پڑھو، دن کا صیام اور رات کا قیام کرو، صدقہ خیرات کرو، زکوہ ادا کرو، جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہو، غرض ہر طرح کی نیکی کرو اور ہر طرح کے گناہ سے بچو، کیونکہ شیطان جکڑ دیا گیا ہے، اور تمہارے پاس نیکی نہ کرنے اور گناہ سے نہ بچنے کا کوئی عذر اور جواز نہیں ہے، حیرت ہے اس شخص پر شیطان باندھ دیا گیا ہو، جہنم کے دروازے بند کردیے گئے ہوں اور جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہوں اور وہ اس کے باوجود نیکی نہ کرے، تو سوائے محرومی کے اس شخص کے مقدر میں کچھ نہیں۔
قارئین کرام! حدیث کے اگلے الفاظ یہ ہیں کہ رمضان شروع ہوتے ہی ایک منادی لگانے والا یہ منادی لگاتا ہے، اے نیکیاں اور خیر چاہنے والے! آگے بڑھ، کر ہر وہ نیکی جو تجھے پسند ہے، کیونکہ رمضان آیا ہی نیکیوں کے لیے ہے، پھر وہ منادی اگلی منادی یہ کرتا ہے کہ اے گناہ کرنے اور شر چاہنے والے رک جا! بس کر جا، بہت گناہ کر لیے، اور کتنے کرے گا، اس غلاظت میں اور کتنا گندا ہوگا، اس گناہ کی بستی میں اور کتنا رسوا ہوگا، دیکھ رمضان آگیا ہے، نیکیوں کا موسم بہار آگیا ہے، اب گناہ ترک کر. معصیت چھوڑ، رسوائیوں والے اعمال کو ٹھوکر مار اور رشدو ہدایت، ایمان، اعمال صالحہ اور تقوی کی طرف آجا۔منادی کرنے والے کی روز کی یہ منادی بھی رمضان کی رحمتوں برکتوں میں شامل ہے۔
قارئین کرام! رمضان المبارک وہ ماہ مقدس ہے جس کا انتظار اسلاف صلحاءکو سال بھر رہتا ہے ،جس کو پانے کی وہ اللہ سے دعائیں و التجائیں کرتے رہتے تھے، پھر جب رمضان کو پالیتے تو اس میں عبادات اتنی شدت سے کرتے کہ رمضان کا کما حقہ حق ادا کر دیتے تھے، آج وہ رمضان میری اور آپ کی زندگی میں آیا ہے، دیکھیے، شیاطین باندھ دیے گئے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں ۔آگے بڑھیے! بذریعہ رمضان جنت کمالیجیے اور جہنم سے آزاد ہو جائیے