رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر ایک بڑا انعام ہے جو اس مہینے میں بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے نوازتے ہیں۔کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانہ پر کی جاتی ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت والی خبر ہوا کرتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمت ِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد،اللہ اور رسول سے بے انتہا لو’ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔ر مضان اسلام کا چوتھا ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر روزے فرض کیئے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں روزوں کے متعلق فرماتا ہے” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ چند مقرر دِنوں کے روزے ہیں”( البقرة ٤٨ ١) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اْس کو لازم ہے کہ اس مہینے کے پورے روزے رکھے ” ( البقرة ٥٨١) روزے رکھنے واے مرد و ں عورتوں کے لیے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر مہیاً کر رکھا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی ، پھر اس ماہ میں زکوٰة،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر تبدیل کر دی۔یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارہ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہو۔لہذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوںسے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔
دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اْس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہیں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پایااور دلایا جانا چاہیے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیئے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اْسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس کی ضرورت ملکِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخ رو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیںاور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑیں نہیںبلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والا بن جائیں۔فائدہ یہ ہوگا کہ اْن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادہ اور اس کے بعد کے ایام میں ،ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیںجن کے اختیار کے نتیجہ میںاللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیںاور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟؟۔حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دْور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اورمیسر آجائیں۔لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہعوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام توان ہی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔وہ کامل پروگرام کیا ہے؟اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بتا تے چلیںکہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔
لہذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہرسطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں،یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الالخیرکی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔اور یہی ا وقت کا تقاضہ بھی ہے کہ ہم داعی حق بن جائیں۔لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے۔لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔داعی حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کار ِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے ،اسے احسن طریقہ سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔
داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اپنے مخاطب کوراست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجہ میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی راہنمائی نہیں کر سکتے۔لہذارمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا۔پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم کی آمد کا مقصد کیا تھا تواستقبال کریںرمضان المبارک کا اپنے قول سے، اپنے عمل سے ، اسلامی نظریہ حیات کو عام کر کے اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔استقبال کریں رمضان المبارک کا اِس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجہ میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں اور استقبال کریں رمضان المبارک کا کہ یہ استقبال امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔ سلمان فارسی رض سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریم نے خطبہ دیا جس میں فرمایا:”اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنانفل قرار دیا ہے(یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خواشی سے بطور خودکرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میںفرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینہ میں کسی نے ستّر(70)فرض ادا کیے۔اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب او حاجتمندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے”(بیہقی فی شعبان الایمان)۔
ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیںجن کے اختیار کے نتیجہ میںاللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔