تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہر رمضان مبارک، برکتوں اور رحمتوں کا نزول لاتا ہیں، اللہ پاک نے مومنین پر روزے فرض کر کے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اور یہ روزے صرف مسلمانوں پر فرض ہی نہیں کئے گئے بلکہ ہم سے پہلی تمام امتوں پر فرض تھے۔یہ خالق کائنات کا اپنی مخلوق سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رمضان ہم جیسے گناہگاروں کو بخشنے کا اللہ پاک نے ایک بہانہ بنایا ہوا ہے۔ ایک نفل فرض کے برابر اور ایک فرض ستر فرضوں کے برابر کر دیا۔اور اگر ہم غورو غوض کرتے ہیں تو پتہ چلتا صبح و شام ہم جیسے گناہ گاروں کی بخشش فرما رہا ہے۔ گویا رحمتوں اور برکتوں کی پورے رمضان میں بارش برس رہی ہے۔
رمضان کی ابتدا چاند کے دیکھنے سے شروع ہوتی ہے اور پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70سال کا عرصہ بیت گیا مگر ہم پور ے ملک میں ایک دن نہ روزے کی ابتدا کر سکے اور نہ ہی عید کی خوشیاں ایک ساتھ منا سکے ، ہمارا ملک ایک ، ہماری قوم ایک ، ہماری شناخت ایک ، ہماری شرعیتایک ، ہمارا دین ایک ، ہمارا قرآن ایک ہمارا نبی (ۖ) ایک اور ہمارا معبود( اللہ ) ایک ۔ پھر بحثیت پاکستانی اور مسلمان ہمارا رمضان اور ہماری عید ایک کیوں نہیں َ؟
افسوس سیدالانبیاء جنابِ حضرت محمد ۖ کو ساڑے چودہ سو سال کا عرصہ بیت گیا ، اللہ پاک کا دین فطرت ” اسلام ” مکمل کر دیا۔ آپ ۖ نے تقریباً 23 سال ہمارے سامنے عملی طور پر ” نماز” ادا کر کے ہمیں طریقہ بتا یا۔۔۔۔ مگر ہم آج بھی ہاتھ باندھنے کے معاملے پر متفق نہ ہو سکیں، کوئی ہاتھ اوپر باندھ رہا ہے تو کوئی ہاتھ نیچے باندھ کر نماز ادا کر رہا ہے۔ کوئی رفع یدین کر رہا ہے تو کوئی رفع یدین سے روک رہا ہے ۔ کہنے کا یہ مقصد ہے بحث و مباحثہ کی بجائے افہام و تفہیم کی صورت پیدا کی جاتی تو آج ہماری پہچان مسلک کی بجائے صرف مسلمان ہوتی۔
کفار اور یہودو نصریٰ تو ہمارے دشمن ہیں مگر افسوس کچھ اپنوں نے بھی اسلام کی خدمت کی بجائے نقصان پہنچایا۔ ہم اتنے فرقوں اور مسلک کے نام پر بٹ چکے ہیں ” دینی کالم ” یا دین پر بولنے کی جرت ہی نہیں رہی حالانکہ تاریخ اسلام تو وہ روشن تاریخ ہے جس کو کوئی بھی مسلک یا فرقہ حقیقت جھٹلا نہیں سکتا توپھر بحث و مباحثہ یا تکرار کی نوبت کیوں؟ تاریخ اسلام مسلمانوں کے علاوہ سب اقوام مانتی اور جانتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی ” بابرکت ماہِ رمضان ” کی اگر پورے ملک پاکستان میں ماہ رمضان ایک ساتھ شروع ہوتا تو کیا بات تھی۔ ایسے حالات میں عید تو عید ” لیلةالقدر ” عبادت کی رات کو لوگ کیسے تلاش کریں ، وہ رات جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو تقریباً 84سال بنتے ہیں یعنی لیلة القدر کی رات کی عبادت ایک طرف اور ہزار مہینوں سے افضل یعنی جو تقریباً 84سال بنتے ہیں کی عبادت ایک طرف ، اللہ پاک سب کو” لیلةالقدر” نصیب فرمائے۔
یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا، اور قدر کی رات سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا) سُنن ابن ماجہ، رمضان کی راتوں میں سب سے بہترین اور افضل قدر کی رات ہے، ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جِس نے قدر کی رات اِیمان اور نیک نیتی کے ساتھ قیام کیا اُس کے سابقہ گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں) صحیح مُسلم صحیح البُخاری، حدیث،۔ اِمام النووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اِس حدیث کی تشریح میں لِکھا کہ اِیمان کے ساتھ کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اِس قیام کی فضلیت حق ہے اور اِحتساب کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا قیام صِرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئیے کرے نہ تو لوگوں کو دِکھانے کیلئیے کرے اور نہ ہی کِسی اور مقصد سے پوری پاکستانی قوم ایک ہی رات لیلة القدر ایک ساتھ کیوں نہیں منا سکتی۔
رمضان المبارک میں لوگ ثواب کی نیت سے کلینڈر بنواتے ہیں اور ان پر محکمہ موسمیات کی وسط سے اوقات کار درج ہوتے ہیں اور تقریباً تمام کمپنیوں کے کلینڈر ز پر لاہور کا ٹائم درج ہوتا ہے سحری اور افطاری کا اور نیچے درج ہوتا ہے جو فرق ہوتا ہیں دوسرے شہروں کا مثلاً پہلا روزہ جو کلینڈر میں دوسرا لکھا گیا ہے افطاری کا وقت 07:00 یہ لاہور کا وقت تھا اور سرائے عالمگیر کے نواح جو جہلم کے ساتھ ہے جہلم چار منٹ بعد یعنی اس حساب سے وقت بنا 07:04 مگر روزہ کھلا 07:9 سات بجکر نو بجے ۔ یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ ایک مسلک کی ازان ختم ہو جاتی ہے پھر دوسری مسلک کا وقت شروع ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
آؤ صدقِ دل سے دعا کریں اے سب جہانوں کے خالق و مالک اپنے پیارے نبی ۖ کے صدقہ ماہ رمضان کے واسطے ” امت محمدیہ ” کو ایک بنا دے آمین۔