رمضان اور نزول قرآن

Ramadan

Ramadan

تحریر : علینہ ملک
سب دن اور مہینے ایک جیسے ہوتے ہیں ،کیونکہ سب اللہ کے بنائے ہو ئے ہیں اس لئے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ،لیکن بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں جن کے ساتھ ساری انسانیت اور ساری کائنات کا مقدر وابستہ ہوجاتا ہے ۔ایسا ہی عظیم اور بابرکت وہ لمحہ تھا جب غار حرا میں ہدایت خداوندی کی آخری کرن نازل ہوئی اور نبی کریم اس ﷺاس کے امین ٹھہرے ۔اور یہ عظیم اور و بابرکت لمحہ اسی رمضان المبارک کے مہینہ کا تھا اور یہی راز ہے اس مہینہ کی برکت اور عظمت کا۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لئے سر تا سر ہدایت ہے ۔اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔لہذا جو شخص اس مہینے کو پائے لازم ہے کہ وہ اس میں روزے رکھے ۔(سورةالبقرہ ۔۵۸۱)گویا رمضان المبارک کی عظمت و برکت کا سارا راز اس چیز میں پو شیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے میں نزول قرآن شروع ہوا۔

یوں تو باری تعالیٰ کی نعمتیں بے حساب ہیں جنہیں ہم صبح شام اور دن رات سمیٹ رہے ہیں ۔اور جن کا شکر ادا کر نا بھی ہمارے بس سے باہر ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا اور دنیا کی نعمتیں صرف اور صرف اس وقت تک ہیں جب تک سانسیں آرہی ہیں ،آخری سانس نکلتے ہی یہ سب دنیا کی نعمتیں بھی ہمارے لئے ختم ہو جائیں گیں ۔مگر ایک لافانی اور لا زوال نعمت ایسی ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے اور وہ ہے قرآن کی نعمت جو سارے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہے اور رب تعالیٰ کی تمام رحمتوں میں سے سب سے بڑی رحمت ہے ۔اسی لئے تو فرمایا : الرحمٰن ۰علم اا لقرآن (وہ بے انتہا رحم کرنے والا ہے ،جس نے قرآن کی تعلیم دی ) اور تنزیل من الرحمن الرحیم ( حم سجدہ ۱۴:۲) اتارا گیا ہے بے انتہا رحم کرنے والے اور بے انتہا رحیم کی طرف سے ،اور جس رات یہ نازل کیا گیا اس کو لیلتہ القدر اور لیلتہ المبارکہ کا نام دیا گیا ،یعنی برکتوں اور رحمتوں والی رات۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ الہامی ہدایت اور روزے کا بڑا قریبی تعلق ہے ،اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کےلئے جو ہدایت وقتا فو قتا نازل فرمائی ہیں اسے کسی نہ کسی پہلو سے روزے سے خصوصی نسبت حاصل ہے ۔حضرت موسیٰ ¾ نے کوہ طور پر جو ایام گزارے اور جن میں ان کو تورات سے نوازا گیا ان میں آپ روزے سے رہے ۔اسی کی پیروی میں یہودی چالیس دن روزہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں اور چالیسویں دن کا روزہ ان پر فرض ہے ۔ (خروج ۴۳ ۔۸۳ )۔حضرت عیسیٰ نے بھی نزول انجیل کے زمانے جب کہ وہ چالیس دن تک جنگل میں تھے ،روزہ رکھا ۔ (متی ۳۔۴) اور اسی طرح سب سے آخری نبی ﷺ بھی آغاز نزول قرآن سے قبل غار حرا کی تنہائیوں میں زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر اور عبادت الہیٰ میں مشغول رہتے ،آپﷺ اعتکاف فرماتے جس کا ایک جزو روزہ ہے۔

Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

آپﷺ ایک بار روزہ اور ذکر و فکر کے اسی عالم میں تھے کہ جبرئیل ُ پہلی وحی لیکر تشریف لائے اور اسی طرح قرآن کے نزول کا آغاز ہوا ۔ان تینوں جلیل القدر انبیاءکی سیرت کے اس پہلو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن ،روزے اور اعتکاف میں بڑا گہرا ربط ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ،گویا رمضان المبارک کی اہمیت روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ نزول قرآن کی شان اس کو اہم بناتی ہے ۔یہ جشن قرآن کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : لوگو؛ تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے ،یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لئے شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں اس کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے ۔اے نبی ﷺ کہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہر بانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ۔اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔

یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ سمیٹ رہے ہیں ۔(سورہ یونس :۰۱ ۔۸۵ )۔گویا رمضان میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ قرآن ہے ۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینے میں جبرئیل ُ خود آکر نبی ﷺ کو قرآن مجید کا ایک دورہ مکمل کرواتے تھے (بخاری و مسلم : ابن عباس ) اور آپ ﷺ بھی ایک بار پورا قرآن جبرئیل ُ کو سناتے تھے ۔چنانچہ رمضان کے اس مقدس مہینے میں قرآن کی تلاوت و سماعت اور علم تفہیم کا خصوصی ا ہتمام کرنا چاہیے۔

ALLAH

ALLAH

کیونکہ اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن کو پڑھنا ،سننا اور سمجھنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے ۔چنانچہ رمضان المبارک کی راتوں میں تراویح پڑھنے سے ایک تو آپ پورا قرآن ایک بار سن لیتے ہیں اور اس کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں تو ہم یقینا اس ہدایت اور روشنی سے بھی آگاہ ہو جائیں گے جو اس دنیا میں آنے کا مقصد ہے اور اس کائنات کی تخلیق کا اصل سبب بھی ہے۔

تحریر : علینہ ملک