تحریر : ساجد حبیب میمن میں سمجھتا ہوں کہ بجٹ کو پیش کرنے سے قبل حکومت کو ہر شعبے کا ماہر بننے سے گریز کرنا چاہیئے ایک بار عوام کی رائے لے لینی چاہیے یا کم از کم غربت زدہ علاقوں کا دورہ کر کے عوام کی موجودہ حالت کا اندازہ لگانا بجٹ بنانے اور پیش کرنے کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ائیر کنڈیشن ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر عوام کی غربت کا مذاق تو اڑایا جا سکتا ہے مگر ان کی بہتر تقدیر کے فیصلے نہیں کیئے جا سکتے۔
تھوڑا ساآگے بڑھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کی زراعت دشمن پالیسیاں اس ملک کو مسلسل معاشی بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں !! ہوسکتا ہے کہ وزیرخزانہ زراعت کے اس بحران کو امریکہ ،ہندوستان یا اسرائیل کی شرارت قرار دیدیں لیکن جو لوگ اس ملکی کی زراعت کو سمجھتے ہیں اور اس شعبے پر نظر رکھتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہے کہ یہ صرف حکومت کی نالائقیوں کا نتیجہ ہے ۔اس کے بعد ہم کچھ آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے جس اعتماد کے ساتھ اس بجٹ کو پیش کیا ہے اس میں کم از کم ان کے بھروسے کو داد ضرور ملنی چاہیئے ،ستم ظریفی تو یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کی وجہ سے پہلے ہی بزنس مینوں اور دکانداروں نے عام استعمال کی اشیاء خوردو نوش یعنی کسی بھی شخص کے گھر میں استعمال ہونے والی اشیائیں مہنگی کردی تھیں اس پر حکومت نے اس قدر بھیانک بجٹ کو پیش کرکے ان تمام اشیاء میں مزید مہنگائی کی نوید بھی سنائی دی ہے جس کے اثرات ابھی سے دکھائی دینا شروع ہوچکے ہیں ۔دودھ اور ڈیری پروڈیکٹ سبزیاں مرغی کا گوشت اور مشروبات سمیت دیگر بہت سی روز مرہ کی چیزوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
Ishaq Dar
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کرے تاکہ ان کی زندگیوں میں سکون آسکے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حکومت اس وقت عوام کو مہنگائی کی بموں سے نجات دلانا تو دور کی بات وہ اس قوم کو پینے کاصاف پانی تک نہیں فراہم کر سکتی کراچی میں تو غریب عوام کو پینے کا صاف پانی تو کناانہیں نہانے کے لیے کھارا پانی ملنا بھی مشکل ہوگیاہے ،قائرین کرام یہ حکومت اس قوم کو صاف پانی تو کیا فراہم کرے گی ان لوگوں نے منرل واٹر پر بھی ٹیکس بڑھادیاہے اور دیکھا جائے تو منرل واٹر کی خرید تو پہلے ہی عام کی دسترس سے بہت دور ہے۔
میں اس آرٹیکل میں بہت سے حکومت کے ڈرون حملوں کا زکر کرسکتا ہوں جس میں انہوں نے اپنی اور آئی ایم ایف کی من مانیوں کا خوب استعمال کیا ہے مگر کوشش یہ ہے کہ میری یہ تحریرپسے ہوئے غریب طبقے کی آواز بنی رہے تو زیادہ بہتر ہوگا، حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ اس ملک کی عوام کو رمضان المبارک میں جس عتاب سے دوچار کرے گا اس کا اندازہ بھی جلد ہی ہوجائے گامگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے حکومت کی زات کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔میں اس وقت نواز لیگ کے وزیرخزانہ سے سوال کرتا ہوں اس ملک کے وزیر خزانہ کا لقب میں انہیں اس لیے نہیں دے سکتا کہ انہوں نے اپنے تین سالوں میں صرف حکومتی حلقوں کو ہی خوش کیا ہے لہذا عوام کا تو دونوں ہاتھوں سے خون ہی نچوڑا ہے ! ہاں تو میرا سوال ڈار صاحب سے یہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ کس قسم کی اقتصادیات ہیں ! ہماری ایکسپورٹ میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی باہر سے آنے والی انویسمنٹ میں کمی آئی ہے ؟۔ تو آپ ہمیں یہ ہی بتادیں کہ اس عوام کو کہاں کہاں فائدہ پہنچایا گیا ہے کسی ایک جگہ ہی وہ فرمادیں کہ یہاں یا فلاں چیز کی قیمت کو عوام کی دسترس میں کردیا گیاہے؟ پھر کس خوشی میں آپ عوام دشمن بجٹ کو پیش کرکے بغلیں بجا رہے ہیں۔
اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ آپ کی پھیرا پھیریوں کو خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح فارن ایکسچینج زخائر میں اضافہ ہوا ہے بیرونی قرضوں کو آمدنی دکھا کر غیر ملکی کرنسی میں اضافہ دکھایا جارہاہے ، اصل ٹریجڈی یہ ہے کہ بہت سے نئے قرضے صرف اس لیے لیے جاتے ہیں تاکہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے ۔اور یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے ہمارا یہ ملک اور اس میں بسنے والی عوام اس وقت تک نہیں نکل سکتی جب تک اس ملک میں جاری اقتصادی بوسیدہ سوچ سے ہمیں نجات نہیں مل جاتی ، میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ تین سالوں کی پالیسیاں حکومت کو اب چینج کردینی چاہیئے اس ملک کی زراعت کا جس انداز میں بیڑا غرق کیا ہے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا اور نہ ہی سنا ہوگا،اس میں حکومت کے اگر زاتی مفادات ہوتے تو شاید اس ملک کی زراعت کوکبھی نفی میں نہ جانے دیاجاتا۔ ویسے بھی ہماری بدقسمتی اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی زراعت کو مسلسل نظر انداز کیا جارہاہے جس کی وجہ سے اس کی ترقی کا عمل جان بوجھ کر روک رکھا ہے۔
IMF
قائرین حکومت کی جانب سے اس سال آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لینے کا عمل اس سال رک جائے گا۔لیکن آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے چنگل سے اس قوم کا نکلنا اس وقت ناممکن ہے جب تک یہ قوم اس سلسلے میں خود کو نہیں بدل لیتی اور اس ملک میں بسنے والے ایسے حکمرانوں سے نجات نہ حاصل کرلے جن کا کام صرف اور صرف عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنا ہے اس وقت میڈیا نے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ایک مثبت اپوزیشن کا کردار کیا۔
اصل امتحان اس قوم کا شروع ہوتا ہے کہ آخر کب تک وہ ان گھن چکر حکمرانوں کے چکروں میں آتی رہے گی !آخر یہ قوم اپنی تقدیر کو کب بدلے گی ؟قائرین کرام اس حکومت نے آئی ایم ایف کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ایک فائدہ یہ بھی اٹھایا ہے کہ ایک جانب تو انہیں اپنے شاہی اخراجات اور سات پشتوں کی پرورش کرنے کے لیے بے بہا قرض ملا ہے جس کی ادائیگی میں نے اور آپ نے کرنی ہے۔ تو دوسری جانب کئی بین الالقوامی اقتصادی اداروں سے پاکستان کی ڈوبتی ہوئی اقتصادیات کی جھوٹی تعریفیں کروائی گئی ہیں۔
صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان ممالک سے یہ بیانات جان بوجھ کر دلوائے گئے ہیں کیونکہ پاکستان کی موجودہ حالت حالات اور اس کے اقتصادی عمل کی تعریف ان جھوٹی تعریفوں کی قطعی عکاسی نہیں کرسکتے یہ سب میڈیا کو دکھانے کے لیے ڈھونگ رچائے گئے بلکہ یہ اس بات کی مکمل تصدیق ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت بڑے ہی مودب انداز میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل پیرا ہے۔ ختم شد۔
Sajid Habib Memon
تحریر : ساجد حبیب میمن ترجمان آل پاکستان میمن یوتھ