تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری 69 سال قبل 14اگست کو رمضان المبارک کی نیکیوں اور برکتوں والی ستائیسویں رات کو پاکستان کا عمل وجود میں آیا۔ علیحدہ وطن حاصل کرکے مسلمان خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ مگر دوسری طرف انگریز نے چونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا ۔اسلئے ان کی ازلی دلی دشمنی نے انھیں تمام مسلم ریاستوں کو پاکستان کا حصہ نہ بنانے دیا۔ کشمیر پر ڈوگرا راج قائم تھا۔انگریزوں نے بھی ہر حربہ برتاکہ مسلمانوں کی بھاری تعداد والی ریاست جموں و کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکے۔گو ایک آدھ کو چھوڑ کرسبھی اسلام کے نعرے لگانے والی جماعتوں نے پاکستان بننے کی بھرپور مخالفت کی قائد اعظم کی ذات پرتنقیدی وارکیے۔مگر ملک خداداد پاکستان وجود میں آگیا۔اور ہندو اکثریتی ہونے کے باوجود ہاتھ ملتے رہ گئے اصولاً تو انگریز اقتدار کی کنجیاں مسلمانوں کو واپس کرکے جاتے مگر ہندو بنیوں نے برطانوی سامراجی اقتدار کے دوران ان کو خوب شیشے میں اتارے رکھا اور اپنی اندرونی خباثتوں کے باوجود ان کے تابعدار رہے مگر مسلمان چونکہ پیدائشی طور پر غیرت مند ہوتے ہیں۔
وہ انگریزوں کے سامنے تابعداریاںتو کیا کرتے انھوں نے دل سے اپنے سے چھینی ہوئی حکومت اور بدیسی حکمرانوں کو تسلیم نہیں کیا اور مسلسل ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تنظیمیں ،جماعتیں بناتے رہے۔برطانوی سامراجی بھی سمجھتے تھے کہ ان کا سکہ یہاں پر زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔علماء نے جیلیں بھریں،وہاں چکیاں پیسیں،ظلم و تشدد برداشت کیے ،زندہ جلائے گئے” بلیک ہول” جیسے واقعات بھگتے مگر انگریزوںکے در پر نہ جھکے نہ بکے ۔اپنا وطن واپس لینے کی بھرپور جدوجہد کی مگر آزادی کا تمغہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے حصہ میں آیا۔مسلمانوں نے نہ تو قائد کے مسلک کو دیکھا اور نہ ہی چہرے مہرے کو ان کے پیچھے ڈٹ گئے۔مگر قائد کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگیوں کی دال جوتیوں میں بٹنے لگی کئی گروہ وجود میں آگئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے زیر زمین پروگرام بننے لگے ۔سکندر مرزاممتاز دولتانہ ،مشتاق گورمانی، سرسکندر حیات غرضیکہ سبھی اقتداری کرسیوں کی بندر بانٹ میں مشغول ہوگئے قائد کے فرمودات پس پشت ڈال دیے گئے نہرو نے کہا کہ میں نے اتنے پاجامے تبدیل نہیں کیے جتنے پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔
Zulfikar Ali Bhutto
ایوبی آمریت میں مسٹر بھٹو نے بطور وزیر خارجہ استعفیٰ دیکر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی اور تین سالوں کی جدو جہد سے 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے لیڈر بن کر ابھرے مگر وہ بھی اپنے دلکش نعروں اور دلوں کو لبھانے والے پروگرام کی تکمیل نہ کرسکے غریب کی حالت خراب تر ہوتی گئی مزدور کسان دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگے انگریزوںکے ٹوڈی جاگیردار ہر پارٹی میں گھس گئے اور سرمایہ کے زور پر قبضہ جمالیا۔جو کہ آج تک جاری و ساری ہے ۔ضیاء آمریت سے صنعتکار بھی سیاست میں کود پڑے اور اربوں روپیہ لگا کر مقتدر بن بیٹھے اور کھربوں کمانے لگے۔غریبوں کو آزادی تو کیا ملنی تھی۔72فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی پانچ کروڑ غریب بچے سکول نہیں جارہے کہ وہ کماکر نہ لائیں تو گھر کا خرچہ کیسے چلے۔چھ کروڑ افراد کو رفع حاجت کی سہولت میسر نہیں ۔غربت مہنگائی اور بھوک سے بلکتے افرادخود کشیاں اور خود سوزیاں کررہے ہیں۔
جغادری سیاستدانوں کوتقریریں جلسوں میںزمین و آسمان کے قلابے ملانے کا فن تو ضرور آتا ہے مگر کوئی مزدوروں کسانوں محنت کشوں ھاریوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔سود خور مزید امیر تر ہورہے ہیں عام آدمی سمجھتا ہے کہ ہمیںجس آزادی کا تصور دیا گیا تھا وہ69سالوں میں بھی نہیں مل سکی ہم آج بھی انگریزوں کے ٹوڈی اور انکی ناجائز اولا د وڈیروںکے غلام ہیں۔انتظامی اور سیاسی پارٹیوں کے اہم عہدوں پر وہ قابض ہیں کبھی کبھی غریبوں کے دکھی ہونے کا پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا ہے تو اپنی پاپولیرٹی کو قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بیان غرباء کے حق میں دھکیل دیتے ہیں۔تاکہ کہیں غریب عوام آپس میںاکٹھے ہو کرگلیوں کوچوں ،چکوں گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نہ نکل پڑیں جس سے ان کا70کے انتخابات کی طرح دھڑن تختہ ہی نہ ہو جائے۔ آزادی کے حصول کی تحریک کے دوران دودھ پیتے بچے نیزوں کی نوکوں پر پروئے گئے،لخت جگر اپنی مائوں کے آگے ذبح کیے گئے مگر آج ہم انگریزوں کی غلامی سے نجات نہیں پاسکے چند سال قبل ان کاا یک تابعدار غلام کسی بنک میں ملازمت کرتا ہوا معین قریشی نامی رات کے پچھلے پہر یہاں بطور وزیر اعظم بھجوادیا گیا۔
Corruption
جسے ہم نے سر آنکھوں پر بٹھا کر قبول کیا حالانکہ اس کا پاکستانی شناختی کارڈ تک موجود نہ تھا اور نہ اس کے ماں باپ کا کچھ اتا پتا۔آزادی کا جشن ہر سال چودہ اگست کو منایا جاتا ہے جو ہماری قربانیوں کی یادیں دلاتا رہتا ہے مگر یہاںآزادی ہے تو زخیرہ اندوزی سودی لین دین غیر میعاری اشیاء کی فروختگی کی ،مسجدو محراب سے علمائے سُوکی عمل سے خالی تقریروں کی ،جھوٹے وعدے سبز باغ دکھلا اور ورغلا کرووٹوں کے حصول کی، فحاشی عریانی شراب وخمر کی محفلیں سجانے کی۔دہشت گردوں کو بم پھاڑنے اور تباہیاں پھیلانے کی۔رااور اس کے ایجنٹوں کو دنگا فساد پھیلانے کی۔ مسالک فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر بنانے کی ،سود در سود جیسی غلاظتوں میں ملوث نو دولتیے سرمایہ داروں کے ملاوٹی جعلی اشیاء کے کاروباروں کی ۔
جب تک ہم انگریزوں کی غلامی کا طوق گلے سے نکال کر محمد عربیۖ کی پیروی کو نہیں اپناتے شہدائے تحریک پاکستان سے غداری کے مرتکب رہیں گے ہمیںآزادی کے دن خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے سارے کیے گئے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے اور پاکستان میں ایسے نظام کو لانے کی جدو جہد کرنا ہوگی جہاں کوئی بھوکا رہے نہ بیروزگار کسی کا مال غیر محفوظ ہو نہ ہی عزت و آبرو تبھی ہم صحیح معنوں میں آزادی کے مفہوم پر پورا اترسکیں گے اور مکمل آزاد کہلا سکیں گے۔