رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا پہلا عشرہ جاری ہے اور خدائے بزرگ و برتر نے اس شدید گرمی کے موسم میں روزہ داروں کے لئے آسمان پر بادلوں کا جمِ غفیر سجا یا ہوا ہے، تاکہ روزہ داروں کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر انسان پھر بھی اس کی محبتوں کو محسوس نہیں کر رہا ہے۔ آج کہا جاتا ہے کہ انسان ترقی کرتے کرتے مریخ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ لیکن مجبوریاں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ شاید اس لئے کہ انسان نے رب تعالیٰ کو بھلا کر انسان ہی کو سب کچھ مان لیا ہے۔ آج کا انسان، انسان ہی کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔
خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ گیا ہے۔ایسے میں انسان کا بھٹکنا ہی اس کا مقدر، اور مایوسی ہی اس کا زیور بن گئی ہے۔ انسان کو ہی اپنا آقا، اپنا سب کچھ مان لیا ہے۔ اسی سے مانگتا ہے، اسی کے آگے جھکنے لگا ہے۔ جب ذلت کا سامان خود کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے شکوے شکایات کیوں کرتا ہے؟ خود ہی اپنی خواہشات کا غلام بن بیٹھا ہے۔ پہلی امتوں میں سے کئی سورج کو پوجتے تھے تو کئی گائے کو اور کئی چاند ستاروں کو۔ کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانا۔ ایک اُمت تھی خالصتاً اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتی تھی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی، ان کے بتائے ہوئے راستوں پر عمل پیرا رہے انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
دنیا میں رتبے ملے اور آخرت میں بھی سرخرو ہوئے۔ انہیں جنت کی بشارت دی گئی۔ مگر افسوس! جب اسی اُمت میں سے جس نے اپنے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات ، فرمان کو بھلا دیا ، زمانے میں رسوا ہوئے۔ معاشر ے میں ذلیل و خوار ہوئے۔ گردشیں، مصیبتیں، آفات ان کی جان نہیں چھوڑتی۔ جب سچائی کے راستے سے بھٹکتے ہیں تو ناکامی، رسوائی، ذلت ان کا مقدر بن ہی جاتی ہے۔ جس کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیئے تھا، اسے تو بھولے سے بھی سجدہ نہیں کرتے۔ مسجدیں بنانے کا شوق تو ہے مگر ان میں عبادت کرنے نہیں جاتے۔ خدا کی بنائی ہوئی خدائی کے آگے سر بسجود ہیں۔ ان سے مانگتے ہیں۔ ان کو مانتے ہیں، ان سے طلب کرتے ہیں، گمراہ ہوکر زندگی خوار کر رہے ہیں۔ جو بن مانگے دیتا ہے اس کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ انسان کتنا نا شکرا ہے، ہزاروں نعمتیں پاکر بھی شکوے شکایات کرتا ہے۔ اس کی زبان شکایت کے انبار تلے دب گئی ہے۔ جس زبان سے اس ذات کا ذکر ہونا چاہیئے تھا اسی زبان سے شکوے کرکے گناہوں میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ہوس، حرص اس کی رَگ رَگ میں سما گیا ہے۔ لالچ، بدیانتی کے جراثیم اس کے خون میں رَچ بس گئے ہیں۔ اب بولتا ہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ کھاتا تو حرام ہے۔ چلتا ہے تو گناہوں کی طرف، شراب خانے کی طرف۔ دیکھتا ہے تو برائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ خود کو نیک، پرہیز گار اور دوسروں کو بُرا گردانتا ہے۔ تعریف اپنے لئے اور تنقید دوسروں پر، دوسروں کی اصلاح تو کرتا ہے مگر اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا۔ اپنے آپ کو نہیں دیکھتا۔
یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے۔ ملک قرض میں ڈوب گیا ہے۔ کرپشن عام ہوگئی ہے۔ نوکریاں رشوت پر ملتی ہیں۔ حکمران اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔عوام کو کنگال کر دیا ہے۔ عوام روٹی کو ترس گئے ہیں۔ سارے الزام برسر اقتدار لوگوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار تک پہنچایا کس نے ہے؟ ان کو ووٹ کس نے دیئے؟ آپ سب نے، ہم سب نے، پھر رونا کیسا، احتجاج کیسا، دھرنے کیسے، روڈ بلاک ، ہڑتالیں کیسی، جلائو گھیرائو کیوں؟ اپنے مفاد کی خاطر اپنوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں؟ اللہ رب العزت نے تو فرما دیا ہے کہ جس طرح کی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے۔ ہم دوسروں کی خامیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں، اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہی نہیں۔ چور تو اپنے من میں چھپا ہے اور ڈھنڈورا شہر بھر میں کیوں پیٹتے پھرتے ہیں۔ محتاجی کا کشکول تو خود گلے میں ڈال لیا ہے،مجبوریاں انسان کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔ مانتے ہیں بات ٹھیک ہے مگر کبھی یہ سوچا کہ ان مجبوریوںکے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ آج انسان ہی انسان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔
Allah
یہی ہاتھ اگر خدا تعالیٰ کے آگے دعا کے لئے اٹھے ہوتے تو مجبوریاں جنم ہی نہ لیتیں۔ جس نے خدا کو بھلا دیا، اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔ زمانہ نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ بھٹکنا ان کا مقدر، رونا ان کا نصیب بن جاتا ہے۔ تب بیماریاں اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، ناشکرا انسان پھر بھی رب تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ تو بیماریاں، مصیبتیں، آفات دے کر انسان کو آزماتا ہے۔ یوں سمجھیں جھٹکے لگواتا ہے کہ شاید بھٹکا ہوا انسان سنبھل جائے اور میری طرف لوٹ آئے۔ لیکن جن کے دلوں پر رشوت، بد دیانتی، کرپشن کے قفل لگے ہوں وہ کیا سنبھلیں گے۔ جن کے من مردہ ہو چکے ہوں۔ دل زنگ آلود اور زبان ناپاک ہوگئی ہو۔ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہو جائیں، سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بنے رہیں۔ ان کے لئے تو عذاب ہی ہے۔ مجبوریاں ان کا مقدر ہوں گی۔ فحاشی، عیاشی کا دل دادہ انسان اپنی عزتوں کا پاس نہیں رکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ زمانے میں اسے سزا دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا۔ جنت نظیر وطن، اس جنت کو دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کیں۔ زرخیز زمینیں دی ہیں جس سے ہم فصل اُگانے کے قابل ہوئے ہیں۔بڑے بڑے شہر اور بہترین دیہات عطا کی ہیں۔ پہاڑی علاقوں پر مبنی ایک بڑا علاقہ عطا کیا ہے۔ مگر ہم پھر بھی ترقی کی زینے چڑھنے کے بجائے پستی کی طرف گامزن ہیں۔
آج ہماری عوام اس بابرکت مہینے میں بھی دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل نہیں، غریبی ، بے روزگاری ، بھوک، افلاس اور مہنگائی سے تڑپتے ہوئے عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے، وہ آہستہ آہستہ چکنا چور ہو رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ ایک کم آمدنی والے فرد کو گھر کے خرچ کے علاوہ پانی، بجلی ، گیس اور دیگر بلوں کی ادائیگی میں ہی ساری تنخواہ چلی جاتی ہے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ اوپر سے کم از کم تنخواہ صرف بارہ ہزار روپئے؟ خدا کی پناہ اسمبلی کے ممبران اور اعلیٰ ترین افسران کی تنخواہیں دیکھیں تو آسمان سے باتیں کرتی ہیں جبکہ ایک مزدور کی تنخواہ صرف بارہ ہزار روپئے؟ ناانصافی کی حد ہے یہاں۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔غریب ، غریب تر اور امیر ، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ کن کن بنیادی چیزوں کا رونا رویا جائے، دالیں، آٹا، چاول اور دیگر اجناس کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہو چکی ہیں کہ غریب کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔
بس یوں سمجھیں کہ ملک کا ہر غریب کسمپرسی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔مہنگائی کے محاذ سے خبر یہ بھی ہے کہ برسات آنے سے پہلے ہی سبزیوں کے بھائو بڑھنے لگے ہیں۔ خاص طور سے آلو کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہ اضافہ کون کرتا ہے، کیوں کرتا ہے؟ اور مصنوعی قلت کیوں کر پیدا ہوتی ہیں؟ اس کا جواب حکومت بھی دینے سے قاصر ہے۔ بس یہ مشہور کہاوت یاد رکھیئے کہ ” سیاں بھئے کوتوال ، اب ڈر کاہے کا”اس کے باوجود سرکار مہنگائی کم کرنے کا عندیہ دیتی رہتی ہے کہ اب مہنگائی کم ہو جائے گی۔ اس کی مثال تو یوں بھی دیا جا سکتا ہے کہ ” نا نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔سمجھے جناب کچھ! بس اختتام کلام اتنا کہ خدا ہمارے حکمرانوں کو اس ملک کے عوام پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین