اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے”اے ایمان والو،تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کی تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی”(ابقرة:١٨٣) اس سے معلوم ہوا کہ روزے ایمان لانے والو، یعنی مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں۔جس طرح اس سے پہلے کے انبیاء کے اُمتوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ یعنی تم پکے اور سچے مسلمان بن جائو گا۔تقویٰ کا مفہوم ایک صحابی نے معلوم کیا گیا، تو اُس صحابی نے کہا، کیا کہ تم کبھی کھیتوں کے درمیان پکڈنڈی سے گزرے ہو ،جس کے دونوں طرف کانٹے دار چھاڑیاںبھی ہوں۔ تم اپنا پلو سمیٹ کر جھاڑیوں سے سے گزرتے ہو۔بات یہ ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو گنائوں سے بچا کر زندگی گزارنا کا نام تقویٰ ہے۔اسلام کی ساری تعلیمات بتدریج نافظ کی گئی ہیں۔ اس طرح روزے بھی مکہ سے مدینہ میں ہجرت کے اٹھارہ مہینے بعد فرض کیے گئے۔رسولۖاللہ نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف تین روزے ہر مہینے میں رکھنے کی ہدیات فرمائی تھی۔ پھر جب ٢ ہجری میں رمضان کے روزوں کا حکم جب قرآن میں نازل ہوا تو اتنی رعایت رکھی گئی کہ کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ۔بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ اب صرف مریض، مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے جن میں روازے کی طاقت نہ ہو ان کے لیے اس رعایت کو برقرار رکھا گیا۔ تقویٰ کی صفت کے علاوہ قرآن میں ایک مقصد یہ بھی بیان ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ” اور جس ہدایت سے اللہ نے تمیں سرفراز فرمایا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو” (البقرة:١٨٥ ) اس سے معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میںاللہ کا شکر گزار بندہ بن کر رہے اور دوسروں کو بھی شکر گزار بننے میں مدد گار ہو۔ اللہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تھا۔ اس لیے اس کا کام ہے کہ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر نافظ کرنے کا م ہے۔ انسان روزے سے تقویٰ حاصل کرے اور تقویٰ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے کہ رسولۖ اللہ نے فرمایا کہ ”رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں” مطلب کہ جتنی نیکیاں کر سکتے ہو کرتے چلے جائو جنت کے دروازے تمہارے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر صدقہ کے دروازے سے جنت میں داخل ہو سکتے ہو تو صدقہ و خیرات کرو۔ اگر روزے کے دروازے ،تلاوت کے دروازے سے، اگر برائیوں سے اجتناب کے دروازے سے پہنچ سکتے ہو تو پہنچو ۔ رسولۖ اللہ نے فرمایا کہ” جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں” اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں انسان برائیوں سے بچتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی طرف مائل ہوتا ہے اس لیے جہنم کے دروازے بند ہوتے ہیں۔فرمایاکہ” شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں” کیونکہ رمضان کے مہینے میں نیکیاں فروغ پاتی ہیں ہر طرف نیکیوں کی بہار ہوتی ہے اس لیے شیطان کی کارفرمائی رک جاتی ہے۔ تمام مسلمان روزے میں ہوتے ہیں اللہ کی طرف رجوع کا ایک ماحول پیدا ہوتا ہے اس لیے شیطان کا حملہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ شیطان بندھ جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ” رسولۖ اللہ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروزوں میں ایک دروازہ ریان ہے” مراد کہ وہ دروزہ جو سیراب کرنے والا ہے۔
اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک آدمی پوری طرح اللہ کے احکاما ت پر عمل کرتا ہے۔ لہٰذا اس کو اللہ پورا اجر دے گا۔مگر ساتھ ساتھ وہ آدمی فیاضی، سخاوت،انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی مصروف رہتا ہے۔ لہٰذا وہ ان نیکیوں کی وجہ سے بھی ریان دروازے سے جنت میں داخل ہو گا۔ایک حدیث میں ہے کہ ” رسولۖاللہ نے فرمایا جن آدمیوں نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے” بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بھوج کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی والا نہیں۔ تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہو جاتا ہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضرہو جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ ٹھوکر تو کھا گیا مگر اپنے رب سے بھاگا نہیں ۔اس بنا پر کہا گیا ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ” رسولۖ اللہ نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کی جزا دوں گا”کیونکہ باقی ساری عبادات ظاہری فعل ہے۔ جو نظر آتے ہیں لیکن روزہ ایک مخفی فعل ہے جو نظر نہیں آتا۔ جو فقط آدمی اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ روزے دار کو بے حساب اَجر دے گا ۔حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ” رسولۖاللہ نے فرمایا رمضان میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا”اس سے مراد لیلةالقدر ہے یعنی وہ رات کہ جس میں قرآن نازل ہوا۔ جیسا کی قرآن میں ہے کہ”ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کی شب قدر کیا ہے۔
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے”(القدر: ١تا٣)ہزار سے مراد بڑی کثرت ہے۔ وہ رات جس میں قرآن نازل ہوا ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ انسان کی بھلائی کے لیے صرف اس ایک رات میں جو بھلائی کا کام ہوا۔ وہ ہزار مہینوں میں بھی نہیں ہوا۔ جس نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔جس نے عبادت نہیں کی وہ محروم رہ گیا۔ گو کہ حکومت وقت نے رمضان آڈر کے ذریعے رمضان کے احترام کا انتظام کیا ہو ا ہے۔ پھر بھی اگر مسلمانوں کی بستیوں میں روزے کے اثرات کا امتحان لیناہوہے تو اس کو مثا ل سے اس طرح سمجھنا چاہے۔مولانا سید ابو لااعلیٰ موددی نے اپنی تفسیر تفہم القرآن میں ایک مثال سے سمجھا تے ہوئے کہ ” سکتہ کے مریض کا آخری اِ متحا ن اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔اگر آئینہ پر کچھ دُھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے،ورنہ اس کی زندگی کی آخری اُمید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔اِ سی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے مضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ،کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کا اُبھارکا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہو، اور اسلامی حس مردہ نظر آئے تو انًاللہِ وَ اِنًا اِلیہ راجعون پڑھ لو۔اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان لے لیے مقدر نہیں ہے”۔رمضان نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے۔ اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ مسلمانوں کو رمضان سمیت ساری عبادات پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ دنیا اور آخرت میں سرخ رو کرے۔مسلمان ملکوں ،خاص کر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام زندگی کا نفاذ ہو۔ عدل و انصاف ہو۔ مہنگاہی ختم ہو۔ امن امان ہو۔ دہشت گردی ختم ہو۔ایک دوسرے کا احترام ہو۔دکھوں کی ماری امت مسلمہ کو سکون نصیب ہو۔آمین۔