رمضان المبارک کا عظیم الشان مہینہ گزر رہا ہے جس میں رب کریم کی رحمت و مغفرت کا دریا بہتا ہے، یہ رب تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو یہ ماہ مبارک عطا فرمایا جس میں نفس خود بخود نیکیوں کی طرف راغب ہو تا اور قلب و جگر پر روحانیت کی فضا چھا جاتی ہے۔ ماہِ رمضان دراصل ایک ماہ کا ”ریفریشر کورس ” ہے جس میں ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہے ، اور اس کے اثرات گیارہ مہینوں تک ہم پر باقی رہنے ہیں۔
رمضان کا مہینہ سنہرا موقع ہے ان لوگوں کے لیے جو نماز سے لاپرواہی برتتے ہیں کہ وہ اپنی صحت وعافیت اور جوانی کی نعمت کو غنیمت جانتے ہو ئے ماہ رمضان میں نماز کی ایسی ٹریننگ حاصل کریں کہ وہ ان کا حرزجاں اور آویزہ گو ش بن جائے ،رمضان یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں رشد و ہدایت کا ابدی خزینہ ، آخری الہامی صحیفہ، نسخہء کیمیا،دین و دنیا کی فلاح و نجات کا دائمی ضابطہ، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے عظیم معجزہ وحی رباّنی کا آخری سرچشمہ قرآن حکیم نازل ہوا۔ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ” رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن نازل کیا گیا ، اس میں لوگوں کے لیے ہدایت اور روشن دلیلیں ہیں، راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی (سورة البقرہ/185) ”رمضان المبارک ” کا ماہ مقدس رحمتوں ، برکتوں، سعادتوں اورفیوض و انعامات رباّنی کا گراں بہا مجموعہ ہے۔
اہل ایمان اس کی آمد کاپورے سال انتظار کرتے اور اس کے استقبال کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے رہتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں رحمت ومغفرت کی ہوائیں چلتی ہیں۔ یہ دین ودنیا کی بھلائی ، آخرت کی کمائی اور نیکیوں کا موسم بہار ہے۔حضرت سلمان فارسی کی روایت کے مطابق” شعبا ن المعظم” کی آخری تاریخ کو رسول اکرم نے ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے (رمضان المبارک کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا: لوگو ، تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزارمہینوں سے افضل ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح پڑھنے) کوا فضل عبادت مقرر کیا ہے، جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالی کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت ، یا نفل) ادا کرے گا ، تو اسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا اجر ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے، یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا۔
تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اسے روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ، یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کاسامان (وسائل) میّسر نہیں ہوتے(تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر ، یا صرف پانی ہی کے گھونٹ پر کسی روزے دار کو افطار کرا دے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلا دے ، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض(حوضِ کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، تاآںکہ وہ جنّت میں پہنچ جائیگا۔
Hazrat Muhammad PBUH
اس کے بعد آپ نے فرمایا :” اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصّہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی کا ہے۔ (بعد ازاں آپ نے فرمایا ) جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا ، اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا (بیہقی/شعب الایمان)۔رمضا ن المبارک کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے اس خطبے میں رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ اس ماہ مبارک میں ایک ایسی عظیم و بابرکت رات ہے ، جو صرف ہزار دنوں اور راتوں ہی سے نہیں ،بلکہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ہزارمہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں ، گویا امّت محمد کے خوش بخت افراد اور اللہ کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں شب بیداری اور عبادت و مناجات کے ذریعے قرب الہیٰ کی اتنی مسافتیں طے کر سکتے ہیں ، جو دوسری ہزار راتوں میں بھی طے نہیں ہو سکتیں۔اسی طرح نفلی عبادت کا اجر وثواب فرضوں کے برابر اور فرض عبادت کا اجر دوسرے دنوں کے ستّر فرض ادا کرنے کے برابر ملنا، یہ رمضان المبارک کے ہر دن اور ہر رات کے ساتھ مخصوص ہے، خطبہء نبوی میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ ” رمضا ن صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے ، اس ماہ مبارک میں اہل ایمان کے رزق میں برکت دی جاتی اور اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، جب کہ خطبے کے اختتام میں فرمایا گیا رمضان المبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے۔رحمت ، مغفرت او رنیکیوں کا یہ موسم بہار تقاضا کرتا ہے کہ ہم رمضان اور روزے کی حقیقی روح اور اس کے عظیم مقصد تقویٰ اور تزکیہ نفس کی حقیقت پالیں۔ہمارے اندر اطاعتِ خداوندی اور احساسِ بندگی کا وہ جذبہ پیدا ہو، جو ہمیں ضبطِ نفس، ایثار و قربانی اور امدادباہمی پر آمادہ کرے۔ تقویٰ و پرہیزگاری ، اللہ کا قرب اس کی رضا ، اعتراف بندگی اور اصلاح باطن ہی رمضان اور روزے کی حقیقی روح ہیں۔
ان کا حصول ہی در حقیقت رمضان کا فلسفہ اور روزوں کی فرضیت کا حقیقی مقصد ہے۔ بصورت دیگر حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاجو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں(صحیح بخاری)۔روزے کا مقصد بھی درحقیقت اس شعور کو قائم کرنا ہے کہ تقویٰ ، خوف خدا،اصلاح باطن اور احتساب نفس کے جذبات و احساسات پورے سال ، بلکہ پوری زندگی انسان کے قلب و ذہن پر قائم رہیں۔ احساس بندگی کا جذبہ بے دار رہے ، تعمیر سیرت اور کردار سازی کا عمل جاری رہے اور یہی در حقیقت اسلامی عبادات کی روح اور قرآن و سنّت کی تعلیمات کانچوڑ ہے۔ ہمیں رمضان مین اپنا احتساب کرناچاہیے کہ ماہ رمضان میں ہمارے اندرکیاتبدیلی پیدا ہوئی ؟ اگر رمضان ہمارے اصلاح احوال کا ذریعہ بن رہا ہے تو زہے خوب ! اللہ رب العالمین مزید توفیق سے نوازے اوراگرہم اب تک خواب غفلت میں پڑے ہیں،اور اپنے احوال کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی ہے تواِس سے بڑھ کرخسارے کا سودا اور کوئی نہ ہوگا۔ اگر اس مہینے میں انسان اپنے اندر تبدیلی نہ لا سکا تو کب ل اسکتا ہے۔
اگراس موسم میں مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا نہ ہوسکا تو کب ہوسکے گا ؟ اگر اس موسم میں ہم حسن اخلاق کے پیکر نہ بن سکیں تو کب بن سکیں گے ؟ اگر اس موسم میں ہمارے اندر رذائل اخلاق سے دوری نہ پیدا ہوئی تو کب ہوگی ؟ اگر اس مہینے میں مسلمان خواتین عفت وعصمت کا درس نہ لے سکیں تو کب لے سکیں گی ؟ اگر اس مہینے میں اصحاب ثروت کے اندر سخاوت کا جذبہ پیدا نہ ہو سکا تو کب ہوسکے گا۔ اس لیے کاہل وسست، اور بے پرواہ لوگ ہوش کے ناخن لیں ، رمضان کے با برکت مہینے میں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے آپ کو قرآن و سنت کانمونہ بنائیںابھی بھی وقت باقی ہے، صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔