گزشتہ رمضان میرے عزیز دوست پپو فراڈی نے اپنے فیکٹری کے تین سو ملازمین کو تین سو مرتبہ استعمال کیاپورے رمضان تمام ورکرز اپنے اپنے شیڈول کے مطابق بچت بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز پر جاتے اور آٹا ،گھی ،چینی، چاول وغیرہ لے آتے ۔ایک اَن پڑھ گمنام غریب اپنی سوانحہِ حیات میں لکھتا ہے کہ ” گزشتہ روز میں دو کلو آٹے کیلئے دس دکانوں پر گھوما مگر آٹا نہیں جواب مِلا کہ بس چنددِنوں کی تو بات ہے ذرا صبر کر لو روزے آنے والے ہیں پھر آٹا ہی آٹا ہو جائے گا”ایک اور گمنام اَن پڑھ غریب راوی لکھتا ہے”ہم غریبوں کے روزے ضدی نہیں جو رنگ رنگ کی فرمائشیں کریں ہمارے روزے تو نمک اور پانی سے بھی با خوشی افطار ہوجاتے ہیں۔ وہ غریب مزید لکھتا ہے ”ماہِ رمضان کی آمد سے قبل ہی پتھر کے بنے فروٹ گھر میں لا کر رکھ لیتا ہوں تا کہ معصوم بچوں کا دِ ل بہلایا جا سکے کیونکہ رمضان میں 100 گناہ مہنگے فروٹ خریدنا میرے بس کا کام نہیں۔
شیخ واجد میں عاجزی و انکساری تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔موصوف قانوں دان تو نہیں مگر قانون کے قدردان ضرور ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی کِس مخلوق کو کِس طرح خوش رکھنا ہے ۔ دنیا والوں پر رازِ درویشانہ عیاں ہونے کا خوف نہ ہو تو رمضان المبارک میں وہ ہر نعمت اپنے بیڈ روم تک میں بھی محفوظ کر لیں اور خود بالکونی میں فقیرانہ زندگی بسر کریں۔ پچھلے سال انہوں نے میرے اسرار پرملنگو کو اپنی زکواة کے مصارف میں شامل کر لیا اوراُسے اٹیچی کا منہ کھول کے لاکھوں روپے تھما تے ہوئے دو ،چار تصاویر بھی بنوالیں۔ ملنگو کرسی پربیٹھا نوٹوں سے بھرے اٹیچی کو بھوکی بلی کی کی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اُسکے سامنے ایک اسٹام پیپر آگیا۔
جِس پر لکھا تھا” میں اپنے ہوش و حواس میںاٹیچی میں موجود تمام رقوم شیخ واجد کے نام کرتا ہوں تاکہ وہ اپنے کاروبار میں مذید وسعت پیدا کر کے بہت سے مجبور اور بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کر سکیں ” ساتھ ہی ملنگو کے ہاتھ میں سائن انگوٹھے کیلئے قلم اور پیڈ بھی تھما یا دیا گیا تھا۔
گوداموں کی صاف ستھرائی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کشادہ کرنے کا صحیح وقت اور مہنہ ماہِ رمضان کا ہی ہوتا ہے ۔ذخیرہ اندوزوں کو درمیان کے گیارہ ماہ کِس قدر کانٹوں پر سونا پڑتا ہے رمضان شریف کا چاند دیکھتے ہوئے اِن کے شیطان صفت مکھڑے سے اہلِ نگاہ پر یہ سارا بھیت عیاں ہوجاتا ہے۔یورپ کے رہنے والوں میں عقل اور شعور نام کے جراثیم ذرا برابر بھی موجود نہیں وہ لوگ اپنے تہواروں خصوصی طور پر کرسمس کے موقع پر اشیائے خوردو نوش اور ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء میں نمایا ں کمی کر دیتے ہیں جو کِسی صورت عقلمندانہ فیصلہ نہیں۔
ہم اپنی قسمت ہر سال کی طرح اِمسال بھی خوب چمکائیں گے۔سر پر سفید نیل سے چمکتی اور عطر سے معطر ٹوپی ہوگی ،لباس بھی خوب اجلا اور بے داغ زیبِ تن ہوگا،پانچوں وقت جبیں بھی سجدہ ریز کریں گے ،منہ میں روزہ تو ہوگا ہی”ہاتھ میں تسبیح بگل میںمصلح”جہاں سامانِ آخرت جمع کر رہے ہوں گے وہاں اگر چند ماہ کا سامانِ دنیا(مالِ غنیمت) کوبھی سمیٹ کر جمع کر لیں گے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔
Court
ماہِ رمضان میں ایک بہترین کاروبار گدا گری (بھیک مانگنا )بھی ہے ۔جتنا جلدی ہو سکتا ہے اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے جلد از جلد اپنی جگہ بُک کر وا لیںقبل اِس کے ، کہ تمام سگنل، فوٹ پاتھ ،مارکٹیں، پارکیں وغیرہ پر بیرونِ شہر سے آنے والوں کا قبضہ ہو مقامی لوگوں کا پہلے حق بنتا ہے۔ گزشتہ سال گدا گری ایکٹ کے تحت بھیک مانگتے ہوئے گرفتار ہونے والے خواجہ سرا بھکاری نے عدالت میں جج کو بتا یا تھا کہ رمضان المبارک میں دیگر تقریبات، فنکشن ،شادی بیاہ کی پارٹیاں وغیرہ نہیں ہوتیں اِس لیے مجبورا ً ہمیں بھیک مانگنا پڑتی ہے۔
اگر خدا نہ خواستہ آپ کو اپنا بھیک مانگنے کا ذاتی کاروبار کرنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہ ملے تو آپ کو ماہِ رمضان میں ہر نماز دوسری یا تیسری صف میں پڑھنی ہوگی اور نماز کے اختتام پر فورا ً قبل از دعا کھڑے ہو کر چند مجبوریاں گنوائیں اللہ عزوجل کے گھر میں کھڑے ہو کر اللہ سے نہیں اللہ کے بندوں سے مانگیں ،دنیاوی کاروبار میں ترقی ہوگی ، بس آپ کے پاس بھی خواجہ سرا جیسے پختہ دلائل ہونے چاہیں۔
بلاشبہ ماہِ رمضان میں شیطان قید ہوجا تاہے مگر اپنے تربیت یافتہ چیلوں جنہیں پورے گیارہ ماہ کی ٹریننگ بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دی جاتی ہے اپنا نائب بنا کر چھوڑ جاتا ہے۔ بچت بازار کے اسٹال مالکان کو سستی اَشیاء فراہم کی جائیں گیں ۔یقینا اِن اسٹال مالکان کی ذاتی ایک آدھی پرچون یا فروٹ کی دوکان بھی ہوگی جسے بیٹا ،بھائی، چچا ،تایا،بابا وغیرہ بھی چلا سکتے ہیں اب اگر وہاں بھی یہ سستا سامان پہنچا یا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج تو نہیں ،چھپ چھپا کر یا چوری چھپے ،خفیہ انداز سے یہ اَشیاء مقامِ محفوظ تک پہنچانا چور اور لٹیروں کی نظرِ بد سے بچانے کیلئے انتہائی اہم اور ضروری ہے۔وقتِ افطار کیلئے کثیر تعداد میں لیمن جوس کے Artificial Flavor مجبوری کے تحت مارکیٹ میں آ چکے ہیں کیونکہ اصل اور خالص لیموں کا رس ڈش واش سوپ میں استعمال ہونا ہے۔
بات ماہِ رمضان کی ہو رہی ہے تو اِس حوالے سے ایک اور اہم بات گوش گزار کر تا چلوں کہ رات عشاء کے بعد اللہ والے جب نمازِ تراویح میں مشغول سر سے پائوں تک پسینے میں تر قرآن پاک کی تلاوت کا میٹھا میٹھا رس کانوں میں گھول چکے ہوںگے ، عین وِتروں کے وقت اچانک لائٹ آئے گی اور نچڑتے ہوئے کپڑوں سے ہوتی ہوئی بھیگے جسموں کو جب پنکھوں کی ACسے بھی ٹھنڈی ہوا چھوئے گی تو سارے دِن کے کام کی تکان اور روزے کی شدت کا احساس سیکنڈوں میں دھواں ہو جائے گااور یہ بھی نیپرا (واپڈا)کا مسلمانوں پر ایک احسانِ عظیم ہوگا۔
صحیح مسلم شریف حوالہ (ص١٤٩٣؛حدیث :٢٥٨١) حدیثِ مبارکہ ہے کہ تاجدارِ مدینہ منورہ سلطانِ مکہ مکرمہ ۖنے صحابہ اکرام سے استفسارکیا:”کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟”صحابہ اکرام نے عرض کی ”یا رسول اللہ ۖ! ہم میں سے مفلس وہ ہے جِس کے پاس درہم دنیاوی سامان نہ ہو”تو آپ ۖ نے فرمایا ”میری اُمت میں مفلس ترین وہ شخص ہے جو قیامت کے دِن نماز ،روزہ ،زکواة تو لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی کِسی کو گالی بھی دی ہوگی،کِسی کو تہمت لگائی ہوگی،اُس کا مال نا حق کھایا ہوگا،اُس کا خون بہایا ہوگا،اُس کو مارا ہوگا،پس اِن سب گناہوں کے بدلے میں اِس کی نیکیاں لی جائیں گی ،پس اگر اُس کی نیکیاں ختم ہو جائیں اور مزید حقدار باقی ہوںتو ان (مظلوموں ) کے گناہ لے کر بدلے میں اس (ظالم) پر ڈالے جائیں گے ، پھر اس شخص (ظالم) کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
Muhammad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا muhammadalirana26@gmail.com muhammadalirana26@yahoo.com