تحریر : شیخ خالد زاہد ہر ایک اسلامی مہینے کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے مگر رمضان کے مہینے کے دن رات کا مزاج ہی کچھ اور ہے، رمضانوں میں مسجدیں بھرپور طریقے سے آباد ہوتی ہیں، فضاؤں میں قرآن کی تلاوت کسی مہک کی مانند معلق رہتی ہے جسے سماعتوں سے تو سنا جاتا ہے مگر دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔دوسری طرف اللہ رب العزت اپنے بندے کیلئے ایک اور آسانی بھی پیدا فرما دیتے ہیں اور اس ماہ مبارک میں شیاطین کو قید کردیتے ہیں اس سے مراد یہ کہ شیطان کسی کو بھی اس مبارک اور سعادت والے مہینے میں تنگ نا کر سکے۔ رمضان کا مہینہ آتے ہی ہر طرف رونق ہی رونق بکھری نظر آتی ہے۔ حقیقت میں اس رونق کی اہم ترین وجہ تلاوتِ قرآن کی گونج جو ہرطرف فضاء میں گونجتی سنائی دیتی ہے جس کی وجہ سے رحمتوں سے بھرپور رونق ہی رونق ماحول پر طاری محسوس کی جاسکتی ہے۔
آج کل ٹیلی میڈیا کے کم و پیش ہر چینل پر انعامات کی برسات کے حوالے جیسے پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں جن میں میزبان کسی بھی بات پر وہاں موجود لوگوں میں کسی بھی قسم کے انعامات تقسیم کرتا دیکھائی دیتا ہے اور لوگ بہت انہماک اور شوق سے ان پروگراموں کو نا صرف دیکھتے ہیں بلکہ اس تگ و دو میں بھی مصروف رہتے ہیں کے کسی طرف ان پروگراموں تک رسائی مل جائے ، ان پروگراموں میں دنیا کی آسائیشیں تقسیم ہوتی ہیں اور ان آسائشوں کے لئے تو ہم دن رات بھاگ دوڑ میں سرگرداں ہیں۔ دوسری طرف رمضان کے مہینے میں اللہ اپنے بندوں کو ایک نیک عمل کے بدلے دس نیک اعمال کا ثواب دیتے ہیں اور یقیناًاس سے بھی کہیں زیادہ ۔ مگر افسوس ہم اپنی حقیقی زندگی سے بے خبر ایک پل میں ختم ہونے والی زندگی کی آسائشوں میں مگن ہوئے جاتے ہیں اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے خود کو دور کئے رکھتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ درحقیقت مسلمانوں کی تربیت کا مہینہ ہے ۔ سارا سال آپ نے کس طرح نظم و ضبط سے کام لینا ہے ، کسطرح آپ نے صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے ، کس طرح برداشت کرنا ہے ، کسطرح اپنے ارد گرد لوگوں کا خیال رکھنا ہے اور کس طرح آپ نے تقسیم کرنا ہے ۔ رمضان کا مہینہ دعاؤ ں کی قبولیت کا مہینہ ہے کیوں کہ اس مہینے کی ساری ذمہ داری اللہ رب العزت نے اپنے پاس لے رکھی ہے تو پھر دعاؤ ں کی قبولیت بھی یقینی مگر اللہ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت حقیقی معنوں میں کب ہے اسلئے دعاؤ ں کی مقبولیت کا مخصوص وقت ہے اور وہ اس وقت میں قبول ہوجاتی ہے۔ رمضان میں جہاں گراں فروشی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو خریدار کا ہاتھ بھی اتنا کھول دیا جاتا ہے ۔مہنگائی کا رونا سارا سال رہتا ہے مگر رمضانوں میں بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔
ہم ہیں تو جنت کے متوالے و متلاشی اور ہم اپنی بخشش بھی کروانا چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے اپنے رب کو منانا نہیں آتا۔ رمضان تو وہ ماہِ مبارک ہے کہ تم صرف نیکیاں کرتے جاؤ تمھارا رب تمھارے کھاتے میں نیکیاں ڈالتا جائے گا تم عبادت کرتے جاؤ تمھارا رب نیکیاں بڑھاتا جائے گا۔ خیرات ، زکوۃ اور صدقات کی اتنی فراوانی ہوتی ہے کہ کیا کہیے ۔ معلوم نہیں ہم کس طرح کے مسلمان ہیں کہ اپنے پیارے نبی ﷺ کی اتباع کرنے سے گریزاں ہیں ، آپ ﷺ کی زندگی بنی نوع انسان کیلئے عملی نمونہ ہے مگر ہم نے ثواب کیلئے تو آپ ﷺسے محبت کر رکھی ہے مگر آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا ہمارے لئے بہت مشکل دیکھائی دیتا ہے۔
ہمیں ہر بات کی پشیمانی بھی ہوتی ہے مگر ہم پھر بھی سدِباب نہیں کرتے ۔ ہم بار بار اسی کو ووٹ دیتے ہیں جو بار بار ہمیں دھوکا دیتا ہے ۔ ہماری زندگیوں سے ایک اور قیمتی رمضان کا مہینہ گزر گیا ہم کسی گیم شو کے پاسس نا ملنے پر سوائے ہاتھ ملتے رہنے کہ اور کچھ بھی نہیں کر سکے۔ ہمیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے شریف خاندان کی تلاشی میں لگائے رکھا، ہم رمضان کے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں مصروف رہے اور ہم کرکٹ کی چیمپئن ٹرافی میں مگن رہے اور رمضان کا رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ گزرتا چلا گیا۔ ہم اس مہینہ کا حق ادا کرنے سے قاصر ہی رہا کرتے ہیں۔ جبکہ سارا سال یہی سوچتے ہیں اب کی دفعہ رمضان میں خوب عبادت کرینگے خوب اپنے رب سے انعام و اکرام پائینگے مگر آہ! ایک اور رمضان ہماری زندگیوں سے نکل گیا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم لوگ رمضان کے روزے نہیں رکھتے ، روزے پورے رکھتے ہیں افطاری کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں سحری کرنے کہیں باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ مگر بات وہیں آکے ختم ہوجاتی ہے کہ ہم دنیا وی ضروریات کی تکمیل میں تھکے جاتے ہیں، ہماری نمازیں چھوٹ جاتی ہیں ہم سے دعاؤں کا وقت دور ہوجاتا ہے ۔ شیاطین کی قید سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں وہ ہمیں نا ہوتے ہوئے بھی اپنے پیچھے لگائے رکھتا ہے ۔ہم کسی بھی بات پر لڑنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم اب شیطان کے بنائے ہوئے راستے کہ اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ رحمن کے راستے پر چلنا بہت مشکل دیکھائی دیتا ہے۔ یہ رمضان بھی گزر گیا ۔ جیسے جیسے حالات ناموافق ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اجر میں بھی یقیناًاللہ پاک اضافہ کئے جا رہے ہیں۔
اس رمضان میں جن باتوں پر خصوصی طور پر زور دیا گیا وہ موجودہ دور کا مذہبی مسلۂ نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم معاشرتی مسلۂ بنا ہوا ہے اور وہ ہے والدین کی نافرمانی، دوسری جس بات پر علمائے کرام زور دیتے آرہے ہیں اور ان رمضان میں بھی زور دیتے رہے ہیں وہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ استغفار کیا جائے۔
اب رمضان گزر گیا ہے اب مہمان چلا گیا ہے اب ہمیں ان کاموں پر عمل پیرا ہونے کی سعی کرنی ہے جس کی تربیت رمضان کے ماہ مبارک میں دی گئی ہے اور ان کاموں سے اپنے آپ کو روکنا ہے جن سے روزے کی حالت میں رکنے کو کہا گیا ہے ۔ اس تربیت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھال لیجئے نافرمانیاں بھی ختم ہوجائیں گی اور استغفار کی کثرت بھی بڑھ جائے گی اور رزق میں برکت بھی آجائے گی۔ دعا کیجئے کہ اگر ہمیں اگلا رمضان میسر آیا تو ہم بھرپور محنت اور لگن سے اللہ کی عبادت کرینگے۔یہ سیاسی اور معاشی مسائل کبھی ختم نہیں ہونگے اور نا ہی ہمارے دفتروں کے کام کبھی ختم ہونگے، یہاں تک کہ ہم اس دارِ فانی سے کوچ کرجائنگے۔جو حقیقی معاملہ ہے اس طرف آجائے۔
آخیر میں اپنے تمام قاریوں کو دل کی گہرائیوں سے عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاؤ ں کی درخواست کرتاہوں۔ اللہ ہمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے لئے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے (آمین یا رب العالمین)۔