تحریر: علی عمران شاہین رمضان المبارک کا دوسرا جمعہ میرپور آزاد کشمیر کے نواحی قصبہ جاتلاں میں تھا۔ میرپور کے باسیوں کی بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے۔ یہ لوگ منگلہ ڈیم بنتے حکومتی کوششوں سے اعزازی طور پر برطانیہ کے پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ لوگ گاہے گاہے اپنے آبائی علاقے کا بھی چکر لگاتے رہتے ہیں۔ نماز جمعہ کے بعد ایک مقامی بزرگ نے ملاقات کے بعد بتانا شروع کیا کہ ان کی زندگی کے 45سال برطانیہ میں گزرے ہیں، چند ہفتے پہلے برطانیہ سے واپس آئے ہیں اور آج کل اپنے وطن میں قیام پذیر ہیں۔ برطانیہ میں اسلام، مسلمانوں اور عیسائیت کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایسے انکشافات کئے کہ جنہوں نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
وہ گویا ہوئے کہ میں نے 45سال کے عرصہ میں لندن سمیت سارے برطانیہ میں کوئی ایک نیا چرچ بنتے نہیں دیکھا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے، یہ صرف کاغذات کی حد تک محدود ہے۔ وہاں کا معاشرہ توچرچ جانا عرصہ دراز سے چھوڑ چکا ہے۔ پادری جسے عیسائیوں نے اپنے لئے ”فادر” کا نام دیا تھا، آج اس کا کوئی احترام نہیں۔ نیا چرچ کیا بنتا، وہاں تو سارے کے سارے ہی پرانے چرچ نیلام ہو رہے ہیں۔ سارے برطانوی معاشرے سے عیسائیت کا وجود اور تعلق عملاً مٹ چکا ہے۔ ہاں، البتہ اس عرصہ میں مسلمانوں نے بے شمار نئی مساجد تعمیر کی ہیں جن میں سے زیادہ تر نیلام کردہ چرچ خرید کر بنائی گئی ہیں۔برطانوی معاشرے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور نوجوان تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ پردہ اور داڑھی عام ہو رہے ہیں، اسلام کی اس ترقی اور ترویج میں سب سے بنیادی اور اہم کردار سعودی عرب کا ہے جو مساجد کی تعمیر، اسلامی مراکز کے قیام، قرآنی نسخوں اور تفاسیر کی تقسیم زورشور سے کر رہا ہے۔
میں نے کہا کہ کچھ ایسی ہی باتیں چند ہفتے پہلے بی بی سی ورلڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتائی تھیں کہ برطانیہ میں آج سے 10سال پہلے مسلمانوں کی آبادی محض 11لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 27لاکھ ہو چکی ہے۔ پھر یہ مسلمانوں پر حملے کون کرتا ہے؟ اس پر وہ گویا ہوئے کہ اس میں اسلام دشمن یہودی اور ہندو لابی ملوث ہے جن کا کسی حد تک ساتھ ایک مقامی لیکن انتہائی محدود عیسائی طبقہ بھی دیتا ہے لیکن انہیں بھی اس پر ابھارنے والے ہندو اور یہودی ہی ہیں اور وہی اب ان کوششوں میں ہیں کہ مسلمانوں کے لئے حلال گوشت، پردے، داڑھی وغیرہ پر پابندی عائد کروا کر اسلام کی بڑھتی روشنی کو روک سکیں لیکن جس طرح وہاں اسلام کو قبولیت ملی ہے، اسے اب روکنا ممکن نہیں۔
یہ حالات صرف برطانیہ کے نہیں ہیں۔پروفیسر حافظ محمد سعید کے برادر اصغر حافظ محمد مسعود کو امریکہ نے چند سال پہلے اپنے ملک سے ڈی پورٹ کیا تھا، ہمیں ایک مجلس میں بتانے لگے کہ میری زندگی کا اکثروبیشتر حصہ بوسٹن شہر میں گزرا ہے۔ میں نے وہاں جو آخری دو سال گزارے تھے، صرف ان دو سال میں میری آنکھوں کے سامنے ڈیڑھ سو چرچ ویران ہو کر نیلام ہوئے جن میں سے کئی ایک مساجد میں تبدیل ہو گئے توکئی ایک مارکیٹوں، گھروں بلکہ شراب خانوں تک میں بدل گئے۔ یہ ہے کل کے عیسائیت کے مرکز برطانیہ کے بعد آج کی سب سے طاقتور عیسائی ریاست ہونے کے دعویدار امریکہ میں عیسائیت کا حال۔ اسی امریکہ کا صدر باراک اوبامہ اور اس کی ساری قوم خوشی سے نڈھال ہے کہ ان کی سپریم کورٹ نے ملک میں ہم جنس پرستی اور باہم شادیوں کی اجازت دے دی ہے حالانکہ یہ تو عیسائیت میں ایک سنگین جرم ہے لیکن چونکہ عیسائیت کا عملاً جنازہ ہی اٹھ چکا ہے لہذا اب یہی کچھ تو ہونا تھا۔
Narendra Modi
آج کی خبر سنئے، بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی اپنی قوم کے سامنے اپنے ایک دلی درد کا اظہار کر رہا ہے۔اس درد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ بھارت میں بچیوں کا پیدائش سے پہلے قتل اس قدر بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے کہ اس کے نتیجے میں اب ایک ہزار ہندو لڑکوں کی شادی کیلئے دستیاب ہندو لڑکیاں 9سو سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ بھارت پر بھی آبادی کم کرنے کا بھوت سوار ہے تو ہر شادی شدہ جوڑے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں صرف بیٹے کی پیدائش ہو۔ سو لوگ الٹرا سائونڈ کرواتے ہیں اور یوں بیٹیوں کا قتل عروج پر ہے۔ بھارت نے الٹرا سائونڈ پر پابندی کا قانون تو بنایا لیکن اس پر عمل کہاں ہوتا ہے۔ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ حالت اس قدر پریشان کن ہے کہ ہمیں ”آئوٹ آف باکس” اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اس حوالے سے مودی نے کہا کہ لوگ اپنی بیٹیوں کی اپنے ہمراہ اپنے ہی ہاتھ سے ایک ساتھ تصویر بنائیں اور انہیں ذاتی طور پر بھیجیں۔ اس کا خیال اسے کچھ یوں آیا کہ ریاست ہریانہ کے گائوں بی بی پور میں مقامی سرپنچ نے ایسے ہی ایک مقابلے کا انعقاد کیا تھا کہ بچیوں کا قبل از پیدائش قتل روکا جا سکے لیکن اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ سارے یورپ ہی نہیں بلکہ روس، کوریا، سنگاپور سمیت دنیا کے اسی طرز کے اکثروبیشتر ممالک میں آج کل سب سے بڑی سماجی مہم یہ ہے کہ اپنے لوگوں کو بچوں کی پیدائش پر آمادہ کر سکیں کیونکہ ان ممالک کی آبادی میں اضافہ تو کیا ہونا ہے وہ تو منفی میں جا رہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا ایک بڑا دشمن جرمنی اس میدان میں پہلا نمبر لے چکا ہے۔
اب ذرا تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں۔ 28جون کو ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل پر اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے سربراہ انتونیوگولیئرس اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہیں ”دنیا بھر میں زیادہ تر مہاجرین مسلمان ہونے پر انہیں تشویش ہے’ مسلم ممالک میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔”کروڑوں مسلمانوں کو مہاجر بنانے،انکی مساجد ڈھانے والے،ان کے ہر روزلاتعداد بچے والے آخر کون ہیں… ؟ فوراً سمجھ میں آ جائے گا کہ یہی ممالک جو آج اپنی بقا کی جنگ میں یوں مصروف ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے عبرت کا سامان ہیں لیکن سامان بھی ایسا کہ کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ بظاہر سب اچھا اور روشن لیکن حقیقت میں مستقبل قریب بھی تاریک سے تاریک تر۔ یہ سب تو مسلمانوں کو مٹانے نکلے تھے۔سو انہوںنے ہر جگہ مسلمانوں کو خوب قتل کیا۔ اس کیلئے اقوام متحدہ کے ذریعے قانونی جواز بھی حاصل کئے۔
دنیا کہتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مہاجر قوم فلسطینی ہیں تو وہ انہی طاقتوں کا شاخسانہ ہے۔کون نہیں جانتا کہ باراک اوبامہ کو اسرائیل کے خلاف معمولی قرارداد اور بیان بھی قبول نہیں لیکن….. جھوٹ کی عمارت آخر کب تک کھڑی رہ سکتی ہے؟ مسلمان ،ان کی مساجد ،ان کے بچے اور ان کا مذہب تو ختم نہ ہوئے،بلکہ کم بھی نہ ہوئے، البتہ انہیں ختم کرنے کے خواب دیکھنے اور اس کیلئے اپنی ساری قوت اور ساری صلاحیت استعمال کرنے والے ہی ان دیکھے انداز میں اپنے ہی ہاتھوںیوں مٹ رہے ہیں کہ جس کا تصور محال تھا۔ ان کے عباد ت خانے جیسے مٹ رہے ہیں ،جیسے ان کی نسلیں ان کے اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں آنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے والا معاملہ نہیں۔عبرت ہے عقل والوں کے لئے اور حقانیت کی نشانی ہے کہ حق ہی غالب آ کر رہے گا۔