تحریر : محمد اشفاق راجا سستے رمضان بازاروں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے اور جن دکانداروں اور تاجروں نے رمضان کے دوران مہنگی اشیا فروخت کرکے ناجائز منافع خوری کا منصوبہ بنایا تھا، وہ چند دنوں کے بعد ہی ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔ 6 رمضان المبارک کو مارکیٹوں کے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ معیاری اشیائے خورد و نوش کی رمضان بازاروں میں وافر اور سستے داموں دستیابی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے مقامی بازاروں کی جانب گاہکو ں کا رجحان کم ہوگیا ہے اور جہاں رمضان سے پہلے گاہکوں کا ہجوم رہتا تھا وہ اب ان کی راہ تکتے ہیں۔ یکم رمضان المبارک اور 6 رمضان المبارک کے درمیانی عرصے میں بازاروں میں قیمتوں میں واضح کمی ہوئی ہے اور رمضان بازاروں نے مارکیٹوں میں استحکام پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
رمضان بازاروں میں ہر وہ چیز وافر دستیاب ہے جس کی رمضان میں ضرورت پڑتی ہے۔ شروع میں یہاں لیموں دستیاب نہیں تھا، لیکن اتوار کے روز ہر بازار میں لیموں نہ صرف وافر مقدار میں دستیاب تھا بلکہ نسبتاً بہت ہی معقول قیمت پر یعنی 130 روپے کلو تک فروخت ہو رہا تھا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے لندن سے واپس آتے ہی رمضان بازاروں کے اچانک دورے شروع کر دئے ہیں اور سٹاف کو پیشگی علم نہیں ہوتا کہ وہ کس بازار کا رخ کریں گے۔ اتوار کو انہوں نے قصور کا دورہ کیا اور وہاں لگے ہوئے رمضان بازاروں میں قیمتوں اور اشیا کی کوالٹی کا جائزہ لیا، انہیں بتایا گیا کہ گاہک اشیا کی کوالٹی اور قیمتوں سے مطمئن ہیں۔
رمضان بازاروں میں جو گاہک خریداری کے لئے جاتے ہیں وہ اشیا کی قیمتوں سے باخبر ہوتے ہیں وہ ان بازاروں سے وہی چیز خریدتے ہیں جو بازار کی نسبت سستی اور بہتر ہو ورنہ تو ہر چیز بازار میں بھی دستیاب ہے اور وہ اپنے محلوں سے بھی خریداری کرسکتے ہیں۔ وہ اگر روزے کی حالت میں اور شدید گرم موسم میں رمضان بازار جاتے ہیں تو محض اس لئے کہ انہیں معیاری اشیا معقول نرخوں پر مل سکیں گی۔ یہ گاہک اگر مطمئن ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بازار کامیاب ہیں۔ البتہ وزیراعلیٰ نے لندن سے آکر بازاروں کے اوقات کار بڑھانے کا جو اعلان کیا تھا، وہ عملاً ناکام ہو جانے کی وجہ سے واپس لینا پڑا ہے اور یہ اس لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے کہ اس سے دکانداروں کی مشکلات کا ازالہ ہوگیا ہے۔
Ramzan Bazar
ایک تو یہ اوقات اس لئے مناسب نہیں تھے کہ 9 بجے تراویح کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جن دکانداروں نے نماز تراویح ادا کرنا ہوتی ہے وہ بروقت مساجد میں نہیں پہنچ سکے، دوسرے وہ صبح 9 بجے بازاروں میں آجاتے ہیں اور 6 بجے تک وہ مسلسل نو گھنٹے بازار میں مصروف رہتے ہیں، اس لئے نئے اوقات کار سے ان کی مشقت بڑھ سکتی تھی، چنانچہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ البتہ ان بازاروں میں جو اشیا اب بھی دستیاب نہیں ان میں لیٹر اور نصف لیٹر کی پانی کی بوتلیں ہیں۔ بازار میں کولڈ ڈرنک تو وافر مل رہے ہیں لیکن پانی نہیں جس کے گاہک موجود ہیں۔ جنہوں نے ان بازاروں کی انتظامیہ کو یہ شکایت درج کرائی ہے کہ دکانوں پر پانی کی فروخت کا اہتمام کیا جائے۔ وزیراعلیٰ کے رمضان بازاروں کے دورے کے بعد انتظامی افسر چوکس اور متحرک ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے رمضان بازاروں میں بہتری آئی ہے۔ دراصل ایسے بازار اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب دکانداروں پر مسلسل نگرانی رکھی جائے اور گاہکوں کی شکایات کا بھی بروقت ازالہ کیا جائے۔ اس لئے تمام افسر اگر اپنے اپنے دفاتر میں جو رمضان بازاروں کے اندر قائم کئے گئے ہیں دستیاب ہوں تو بازاروں کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔
یہ بازار چند سال سے لگ رہے ہیں اور اس بار واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ ان کا اثر مارکیٹ پر مثبت پڑا ہے اور ناجائز منافع خوری کے رجحان میں کمی ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت اگر باقاعدگی سے یہ سلسلہ جاری رکھے گی تو یہ کلچر پروان چڑھ جائیگا۔اتوار کو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خلاف دن منایا گیا۔ پنجاب میں اس سلسلے میں جو اقدامات کئے گئے ہیں۔ ان میں بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کو سکولوں میں داخلہ دیا گیا ہے جہاں انہیں بستہ، کتابیں، یونیفارم وغیرہ مفت دینے کے علاوہ ایک ہزار روپے ماہوار وظیفہ بھی دیا جا رہا ہے۔ چائلڈ لیبر جہاں جہاں ہو رہی ہے، پٹرول پمپس، چھوٹے بڑے چائے کے کھوکھوں، سائیکل پنکچر لگانے والی دکانوں اور ہر اس جگہ پر جہاں بچوں سے مزدوری کرائی جا رہی تھی۔ بچوں سے مشقت نہ لینے کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ نے قصور سے واپسی پر اپنا ہیلی کاپٹر اچانک کھیتوں میں اتار لیا اور انہوں نے ایک بھٹے کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے بھٹے پر ایک لڑکے کو کام کرتے دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا، اس کا نام اور عمر پوچھی جو سترہ سال بتائی گئی۔ وزیراعلیٰ نے بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں سے کہا کہ وہ اپنے سب بچوں کو سکول بھجوائیں۔ پنجاب حکومت تعلیمی اخراجات برداشت کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے قصور کا چار گھنٹے تک دورہ کیا۔ وہ ایک عام ویگن میں بیٹھ کر قصور گئے، اس دوران ان کے ساتھ کوئی پروٹوکول نہیں تھا اور نہ ہی ان کے لئے ٹریفک روکی گئی۔