مسلمانو! میں جا رہا ہوں۔ نوجوانو! میں جا رہا ہوں۔ کیا پتہ پھر تمہیں میری رفاقت نصیب ہو نہ ہو۔ آؤ! اس سے پہلے کہ میں تم سے بچھڑ جاؤں۔ مجھے گلے سے لگا لو۔ میرے فیوض و برکات سے اپنے سینوں کو منور کر لو۔ دیکھو! اللہ کے صالح اور نیک بندے، عابد و زاہد بندے اپنی صالحیت کے باوجود رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں، گناہوں سے توبہ کر رہے ہیں۔ آئندہ گناہوں سے بچنے کی توفیق طلب کر رہے ہیں۔ اللہ سے رحمت و مغفرت کی، اس کے جود و سخا کی بھیک مانگ رہے ہیں۔تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھو۔ انبیاء، رسل، صحابہ کرام، اولیاء اللہ جن کی صالحیت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اعمالِ صالحہ کی کثرت کے باوجود اللہ سے رو رو کر اُس کی رحمت طلب کرتے تھے۔ کیا تمہارے اعمال ان پاک نفوس سے بھی تجاوز کر چکے ہیں کہ تمہیں اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر نہیں۔۔۔؟
تاریخ کے صفحات کھنگال ڈالو… اپنے بڑے بوڑھوں سے پوچھ کر دیکھو…. کیا عہد رسالت کے بعد کوئی ایسا رمضان کبھی گزرا ہے کہ جب ساری دنیا کی مسجدیں ویران ہوں؟ کیا اس محرومی پر تمہیں افسوس نہیں؟ پھر کیوں تمہارے معمولات زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا……. تم اپنے رب سے گڑگڑا گڑگڑا کر کیوں نہیں پوچھتے کہ اس نے اپنے گھر کا دروازہ تمہارے اوپر کیوں بند کر دیا ہے؟ وہ اگر ناراض ہے تو تم نے اس کی ناراضگی دور کرنے کی کون سی کوشش کی؟ ایک بچہ جب اپنے والدین سے کسی چیز کی ضد کرتا ہے…. کرتا ہی رہتا ہے…. روتا ہے… روتے روتے اس کی ہچکیاں لگ جاتی ہیں تو آخر کار والدین کو اس کی ضد کے آگے جھکنا ہی پڑ جاتا ہے.
کیا تمہارا رب تمہارے والدین سے بھی زیادہ تمہارا ہمدرد اور خیرخواہ نہیں ہے؟ ہے یقیناً ہے… آسمان و زمین کی وسعتوں کی قسم، اس کی رحمت، اس کے پیار، اس کے عفو و درگزر کی حدوں کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا…….. تم ایک بار اسے منا کر دیکھو تو سہی… ایک بچے کی طرح اسے آواز لگاؤ تو سہی… ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ تمہاری آواز کو نظر انداز کر دے
مسلمانو! ائے قوم کے غیور نوجوانو! میں تمہاری تربیت کے لیے آیا ہوں۔ کیا تمہیں نہیں پتہ کہ ایک فوجی کو سخت ترین فوجی تربیت اسی لیے دی جاتی ہے کہ وہ اپنی سرحد کی حفاظت کر سکے۔ تم بھی دین و شریعت کے ایک فوجی ہو، ایک سپہ سالار ہو۔ اسلام تمہاری سرحد ہے۔ شیطان اور تمہارا سرکش نفس ہر لحظہ تمہاری سرحد میں داخل ہو کر تمہیں بے گھر کرنے کی فراخ میں ہے۔ آؤ، قسم کھا لو، مجھے یقین دلا دو کہ تم اپنے ایمان کی سرحد میں شیطان اور اپنے سرکش نفس کو داخل نہیں ہونے دو گے۔
مسلمانو! ائے میرے عزیز نوجوانو! میں جا رہا ہوں لیکن جاتے جاتے تمہیں تقویٰ کی صفت سے متصف دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میرے آنے کا مقصدِ اولین تمہارے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنا ہے۔ قرآن کے اوراق پلٹ کر دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔’’ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرۃ)۔ آؤ میں تمہیں قرآن کی ہی زبانی بتاتا ہوں کہ متقی کسے کہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات کے مفہوم پر غور کرو۔:
الف۔ لام۔ میم۔ یہ کتابِ الٰہی ہے۔ اس کے کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرۃ)
غور کرو۔ قرآن متقیوں کی تین صفتیں بتا رہا ہے۔ غیب پر ایمان لانا۔ نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اپنے اندر اتر کر خود کا جائزہ لو کہ کیا میری تربیت کے بعد تمہارے اندر یہ تین صفتیں پیدا ہو سکی ہیں یا نہیں؟؟ اب بھی وقت ہے۔ اپنے رب کو منا لو۔ دنیا بہت مانگ لی۔ اب ذرا اپنا دستِ سوال تقویٰ و پرہیزگاری مانگنے کے لیے بھی دراز کر لو۔ ایک بھکاری کی طرح اُس کے در پر ڈٹ جاؤ کہ بغیر لیے نہیں جاؤں گا۔ اپنے دامن کو آنسوئوں سے بھر دو۔ شاید اسے ترس آ جائے۔ شاید اُس کی رحمت جوش میں آجائے۔ شاید کہ عرقِ انفعال کے قطرے موتی سمجھ کر چن لیے جائیں ۔دیکھو دیکھو، محسوس کرو، کوئی آواز دے رہا ہے کہ’ ہے کوئی ہدایت کا متلاشی جسے ہدایت بخش دی جائے، ہے کوئی خیر کا متلاشی جسے خیر و عافیت عطا کی جائے۔‘ دوڑو، لپکو، اگر اب بھی محروم رہ گئے تو تم سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہوگا:
لے کے خود پیرِ مغاں ہاتھ میں مینا آیا مے کشو! شرم کہ اس پربھی نہ پینا آیا
ائے میرے چاہنے والو! جاتے جاتے مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے جانے کے بعد مجھے بھول نہیں جاؤ گے۔ مساجد کے دروازے کھلتے ہی انہیں اپنے سجدوں سے آباد کروگے۔ شیطان کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے باز رکھو گے۔ قرآن سے اپنا تعلق نہیں توڑو گے۔ غرباء و مساکین پر دست شفقت رکھو گے۔ ہدایت کو عام کرو گے۔ مظلوموں کا ساتھ دو گے۔ ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گے۔ اپنے اعمال سے یہ ثابت کروگے کہ ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا و مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘مجھ سے وعدہ کرو۔۔ ۔۔ مجھے یقین دلا دو تاکہ میں ہنسی خوشی تم سے رخصت ہو سکوں۔