ماہِ رمضان رحمتوں کی بارات لیکر بِلا تفریقِ ذات پات ، جاہ و حشمت ہر گھر میں وارد ہے اور ہر طرف خداتعالیٰ کی رحمت برس رہی ہے ۔جس ابنِ آدم کا دامن جس درجہ کشادہ ہو گا وہ اُسی قدر رحمت ِخداوندی سے نوازا جائے گا۔ویسے تو ماہِ صیام کا ہر دن، ہر گھڑی اور ہر لمحہ اپنے دامن میں ان گنت فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہے مگر آخری عشرے میں لوگوں کا ذوق و شوق قابلِ دیدنی ہوتا ہے بوڑھوں سے لے کر جوانوں اور جوانوں سے لے کر بچوں تک ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں اعتکاف کے باعث مسجدوں کی رونق اور گھما گھمی عروج پر ہوتی ہے۔ لوگ خدا کو پانے اور اُس کی رضا و رغبت حاصل کرنے کے لیے اس کے گھر میں چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید وہ مل جائے اور سچی چاہ رکھنے والوں کو وہ ملتا بھی ہے جو اُس کے ہو جاتے ہیں وہ پھر اُن کا ہو جاتا ہے ۔ لوگوں کایہ جذبہِ اعتکاف قابلِ تحسین ہے مگر مجھے بہت عجیب لگتا ہے میں سوچتا ہوں کہ صرف مسجدوں، معبدوں، کلیسائوں اور مندروں میں ہی خدا ملتا ہے ؟ وہ تو ہر چیز میں عیاں ہے ہر شے اُس کا آئینہ ہے ۔ ہاں! دیکھنے والی نظر ہو…! یہ ایک الگ پہلوہے ہمارا آج کا عنوان کچھ اور ہے۔
اعتکاف کے دنوں میں مساجد میں بہت سے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ہمارے قریبی محلے کی مسجد کا یہ دلفریب واقعہ ہے۔ وہاں بھی کچھ لوگ اعتکاف بیٹھ ہوئے تھے۔ عام طور پرجو لوگ اس نیک کام کے مسافر ہوتے ہیں ان کو سحری و افطاری کا سامان پہنچانے کی ذمہ داری چھوٹے بچوں کی لگائی جاتی ہے اوربچے شوق سے ایسے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ایک چھوٹی بچی اپنے پاپا کے لیے افطاری کاکھانا وغیرہ لے کر آتی ہے اور ساتھ میں ماما کی طرف سے پاپا کے لیے ایک پیغام بھی: “پاپا!پاپا! ماما نے کہا تھا کہ اپنے پاپا سے کہنے میں نے کافی دنوں سے آپ کی آواز نہیں سنی آپ اذان د یں گے تو میں آپ کی آواز سن لوں گی”۔ پاپاجی لگے سوچنے کہ اب ہماری رفیقہِ حیات کو پتا کیسے چلے گاکہ اذان دینے والے میرے رفیقِ حیات ہیں یا کوئی اور رفیق صاحب…! کافی دیر سوچنے کے بعد آخر کا ر اُن کو ایک تدبیر کارگر معلوم ہوئی اور بچی سے کہنے لگے:”اپنی ماما سے کہنا کہ صبح فجر کی اذان میں دوں گا اور اذان سے پہلے صلوٰةو سلام میں یانوراللہ کہوں گا”۔ اور پھر بچی کو یاد کروانے کے لیے پوچھتے ہیں :”کیاکہوں گا؟” بچی کہتی ہے:”یا …نور …اللہ…!” اور اس طرح وہ یا نور اللہ دھراتی ہوئی چلی جاتی ہے۔
یہ سارا قصہ ساتھ والے حجرے والا سن لیتا ہے مگر سنانے والے کو خبر نہیں ہوتی۔ صبح جب اذان کا وقت ہوتا ہے توساتھ والے حجرے والا جلدی سے آگے بڑھ کر الصلوٰةو السلام علیک یا رسولۖ و الصلوٰة و السلام علیک یا نورۖاللہ پڑھتے ہوئے اذان دے دیتا ہے ۔ اس کے بعد اذان پڑھنے والے اور موصوف کے درمیاں لڑائی اور گالی گلوچ کا بازار گرم ہوتا ہے اور یہ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔
مطرب سے کہو کہ چھیڑے ذرااُس جانِ تمنا کا قصہ فرقت کے بھیانک لمحوں ذرا دل کو سہار ا مل جائے
شام کو بچی افطاری لے کر آتی ہے اور سناتی ہے اس واہ! واہ! او ر ماما کی نوکِ زباں سے ادا ہونے والے تعریفی کلمات کاقصہ اور کہتی ہے:”پاپا! ماماجی نے کہا ہے کہ پاپا کو کہنے کے آپ کی آواز بہت پیاری ہے”۔ اب جناب خود پہ بیتے ہوئے غم کو غلط کرنے کے لیے ایک بار پھر ساتھ والے کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پھر بچی سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
“اپنی ماں نوں آکھیں ! اے اذان میں نیں کسے ہور دتی سی……کسے ہور آکھیا سی ……… یانوراللہ ۖ…………!”
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو لوگ بھی اعتکاف کی نیت سے خدا کے مہمان بنیں وہ مساجد میں اتفاق کرنے کی بجائے اعتکاف کریں اور خدا کی قربت پانے کے لیے دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی اصل مقصدیت کو سمجھیں۔