تحریر : کہکشاں صابر اسلامی سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس مبارک مہینے کے روزے کو دین میں فرض قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: ”ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت کا باعث ہے اور اس میں راہ ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں اور فرقان ہے، اس لئے جو کوئی بھی ماہ رمضان کو پا لے تو وہ اس ماہ کے روزے رکھے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں زمین پر معصوم ملائکہ کا نزول ہوتا ہے، آسمانوں سے رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، نیکو کاروں کے لئے درجات بلندکرنے کی بشارتیں دی گئی ہیں، یہ مہینہ دعاو ¿ں کی قبولیت کی ساعتیں کا مہینہ ہے ، سحری کے ایمان افروز لمحات کا مہینہ ہے۔
ماہ رمضان میں قرآن کا نزول ہوا۔ نزول کے پہلے مرحلے میں قرآن مکمل طور پر لوح محفوظ میں لکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا فرمایا پھر اسے حکم دیا ’لکھو۔ اس نے ما کان ومایکون سب کچھ لکھ دیا۔ وہ لکھا کہاں ہے؟ کیا وہ کتاب ، لوح محفوظ میں تو نہیں؟۔ قرآن پاک کے لوح محفوظ میں ہونے کے بارے میں شہادت موجود ہے۔بلکہ وہ قرآن مجید ہے اور لوح محفوظ میں ہے۔قرآن کریم لوح محفوظ سے شب قدر میں یکبارگی اتارا گیا۔پھر اسے آسمان دنیا کے بیت العزت میں رکھا گیابعد میں جبریل امین اس سے تھوڑا تھوڑا کرکے اوامر ونواہی اور اسباب لے کر نازل ہواکرتے۔ اور یہ بیس سال میں سب کچھ ہوا۔
نزول کیلئے قرآن مجید میں لفظ تنزیل استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا۔ جبکہ انزال کے معنی کسی چیز کو ایک ہی دفعہ نازل کر دینا۔ قرآن مجید میں لفظ انزال جہاں استعمال ہواہے اس سے مراد عموماً وہ نزول ہے جو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف ہوا۔اور تنزیل سے مرا دوہ نزول جو آسمان دنیا سے آپ ﷺ پر بتدریج ہوا۔ اس تیسرے مرحلے میں سیدنا جبریل ؑ نے آسمان دنیا سے قرآن کو نبیﷺ کے قلب مبارک پر نازل کیا۔پہلے دونوں مرحلوں کی نسبت اس مرحلے میں قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا۔ عربی اصطلاح میں اسے “م ±نَجَّم” بھی کہتے ہیں۔آیات کو بھی نجم کہا گیا ہے۔اس میں کوئی لفظ بھی خواب ، الہام یا بلاواسطہ کلام سے نازل نہیں ہوا۔ صرف جبریل ؑ امین ہی واسطہ تھے۔
Hazrat Mohammad PBUH
کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا“۔ گویا اللہ تعالی موقع فراہم کررہا ہے کہ میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی ۔ آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں۔رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ﷺ ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتا ہے۔ اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے جو خدا وند تعالی نے انسان کو دی ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الہٰی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آکراپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاءکی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺفرماتے ہیں: ” آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گناہ تک دیاجاتا ہے“۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”سوائے روزے کے روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں دوں گا“۔ مزید ارشاد ہے ”بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وجہ سے ترک کرتا ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب جل جلالہ سے ملنے کے وقت۔ روزہ دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ نمبر 363)حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی ہرشب وروز میں اللہ کے یہاں سے جہنم کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہرمسلمان کیلئے ہرشب وروز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
اس ماہ مبارک میں خوب گڑگڑا کر صبرو عاجزی کے ساتھ اپنے لئے، والدین کیلئے، خصوصاً امت مسلمہ کیلئے کیونکہ امت مسلمہ اس دور میں ہرجگہ ہرملک میں پریشان ہے۔ خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا غیرمسلم ممالک۔ لہذا امن عالم کیلئے اور مسلمانوں کی فتح وکامرانی کیلئے اس رمضان المبارک کو غنیمت سمجھیں اور دعاءمقبول میں انہیں یاد رکھیں یہ ماہ ہے ہی دعا کی مقبولیت کا تو کیوں نہ ہم اس سے فائدہ اٹھائے تو کیوں نہ ہم رب کے حضور گڑگڑائے۔ رمضان کی مقدس راتوں میں سے ایک رات لیلة القدر:جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت ورحمت ہے۔
Holy Quran
قرآن مجید میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا چنانچہ ارشاد باری ہے لیلة القدر خیرمن الف شہر۔ شب قدر کی اہمیت کیلئے قرآن کریم میں بیان کردہ مذکورہ فضیلت ہی کافی تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی قدرومنزلت بتانے کیلئے متعدد ارشادات فرمائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص لیلة القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔
پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا وآخری عشرہ اپنی عبادات وریاضت اور اعتکاف سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرکے جہنم سے خلاصی کا ہے۔ لہذا ہمارے درمیان یہ ماہ بشکل مہمان موجود ہے۔ چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی نہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔
ہمیں اس رحمتوں ،برکتوں اور مغفرت والے مہینے کی قدر کرنی چاہئے پتا نہیں آئندہ سال ہمیں یہ ماہ نصیب ہوبھی کہ نہیں۔ ہم اکڑ کر سوال کرتے ہے کہ ہماری دعاو ¿ں میں اثروطاقت نہیں۔ ہماری دعائیں کیسے طاقتور بنیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف ( آیت نمبر 55 )میں فرمایا: ”کہ تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے“۔ ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کرنے والا خشوع و خضوع یعنی عاجزی اور توجہ کے ساتھ اللہ سے دعا مانگے اور دوسرا ادب سے تو یہ معلوم ہوا کہ آہستہ آواز سے دعا مانگے۔