تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ معلم اعظم ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے بتائی ہوئی تعلیم انسانیت کو دی جسے وہ بھول چکی تھی۔ رسولۖ اللہ نے انسانیت کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کیا اور حقیقی زندی یعنی آخرت کی زندگی کا شعور دیا۔آپ نے فرمایا یہ موجودہ زندگی وقتی ہے اصل زندگی دوسری ہے۔ یہ زندگی مہلت عمل ہے۔آخری زندگی اس زندگی میں نیک اعمال سے حاصل ہوگی۔ اس فلسفے سے انسان اس موجودہ زندگی کو خوشگوار بنا سکتا ہے۔
کاش اگر حضرت ِانسان معلم اعظم ۖ کے اس فلسفے پر عمل کرے تو آپس میں ایک دوسرے کے حقوق نہ مارے، اس پر جنگ جدل نہ کرے اور اس دنیا کو عذاب میں تبدیل نہ کرے۔اسلام کیا ہے؟ اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر ہے۔ اس کو اسلام کے پانچ ستون کہا گیا ہے۔ توحید، نماز، زکوٰة،رمضان اور حج۔ ان پانچ ستونوں پر اسلام کی عمارت گھڑی ہے۔ان پانچ باتوں پر عمل کر کے خود بخود جو چیز اس سے برآمد ہوتی ہے اس کا نام ہے جہاد۔ جہاد کے معنی اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر انتہائی جد و جہد کرنے کو کہتے ہیں تاکہ اللہ کا نظام اللہ کے بندوں پر قائم ہو جائے تاکہ انسانیت پر اللہ زمین کے خزانے کھول دے اور آسمان سے بھی رزق نازل کرے اور لوگ خوش حا ل ہوں۔اور اللہ کی یہ بات بھی پوری ہو جائے کہ میں نے انسانوں کو ایک دوسرے سے درد دل کے لئے پیدا کیا ہے ورنہ میری عبادت کے لیے میرے فرشتوں کی تعداد کم نہ تھی۔
Worship
اللہ قرآن شریف میں فرماتا ہے میں نے زندگی یعنی حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ میں جانچ سکوں کے کون میرے راستے پر چلتا اور کون میرے راستے کا باغی ہے۔پھر آخرت میں انسان کی اسی کار کردگی پر فیصلہ ہو گا ۔کسی کو جنت ملے گی اور کوئی دوزخ میں ڈالا جائے گا۔آج اسلام اور جہادکے دشمنوں نے جہاد کے مقدس معنی بدل دیے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر اپنے ایجنٹ داخل کر کے ان کے ہاتھوںجہاد کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔دشمنوں نے دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔ ان شاء اللہ جلد وہ ناکام و نامراد ہونگے۔اسلام میں جہاد کا صحیح مفہوم پھر راج ہو جائے گا۔ جہاد اسلام میں ہمیشہ سے رہا ہے اورآئندہ بھی رہے گا۔آج ہم اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون رمضان پر بات کریں جو ان ستو نوں میں سے چوتھے نمبر پر ہے۔رمضان کو قرآن میں ماہ صیام کہا گیا ہے۔ صیام سے صوم نکلا ہے۔ عرب کے معاشرے میں صوم اس گھوڑے کو کہتے تھے۔
جسے بھوکا پیاسا دھوپ میں ایک جگہ کھونٹے سے باندھ دیاجاتا تھا،چابکیں مار تے مارتے اسے دوڑایا جاتا، کھانے کو کم دیا جاتا ہے تاکہ وہ صام ہو جائے۔ صام ہونے کے بعد اپنے مالک کا وفادار بن جائے اس کا مالک جیسے چاہے وہ اس طرح عمل کرے۔اس فلسفے کو سمجھتے ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے اللہ کے کتنے وفادار ہیں اور کہنے پر کتنے چلتے ہیں؟ اصل میںرمضان امت مسلمہ کے لیے سالانہ ایک ماہ کا تربیتی کورس ہے۔ اسی لیے ہر سال اس کو دورایا جاتا ہے تاکہ مسلمان اپنے اللہ کے وفادار بن جائیں۔ اللہ نے اپنے رسولۖ کے ذریعے اسلام کے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کریں۔ معلم اعظم ۖاس سالانہ تربیتی کورس کی شروعات شعبان کے مہینہ آتے ہی کر دیتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے رہائی ہے۔
رحمت سے مراد اِدھر اس مبارک مہینے کی آمد پر آپ روزہ رکھنا شروع کرتے ہیںاُدھر اللہ کی رحمت آپ پر سایہ فگن ہو جاتی ہے۔پھر جب اس کا دوسرا عشرہ شروع ہوتا ہے یعنی رمضان کے وسط تک پہنچتے پہنچتے اللہ تعالیٰ آپ کے قصوروںسے درگزر فرما لیتا ہے۔اور آپ کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب آخری عشرہ یعنی آپ رمضان کے آخر تک پہنچتے ہیں تو اِدھرآپ آخری روزہ رکھتے ہیں اُدھر آپ کو دوزخ کے خطرے سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔
Ramadan
اس آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ جب آخری روزے کی وجہ سے آپکو دوزخ سے آزادی حاصل ہو گئی تو اَب آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں۔اب آپ پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ سب پابندیاں توڑ ڈالتے ہیں جو اس مبارک مہینے میں اُنہوں نے اپنے اُ پر عائد کر رکھی ہوتی ہیں۔بس رمضان ختم ہوا اور وہ عین عید کے دن سنیما دیکھنے چلے گئے اور پھر تھوڑا بہت جوا وغیرہ بھی کھیل لیا۔ناچ گانے کا شوق بھی پورا کر لیا۔ آپ غور فرمائیںاِدھر دوزخ سے اللہ نے آزاد کیا اُدھر پھر اُس نے دوزخ میں کودنے کی تیاریں شروع کر دیں۔ان حرکتوں سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔رمضان سے انسان میںتقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے اس لیے قرآن میں فرمایا گیا کہ” اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی”(البقرة:١٨٣)رمضان کا مہینہ نیکیوں کاموسم بہار ہے ۔ سب مسلمان مل کر نیکیاں کر رہے ہوتے ہیں کوئی کسی سے لڑائی جگڑا نہیں کرتا۔
کوئی کسی کو گالی گلوچ نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو دوسرا کہتا ہے بھائی میں روزے سے ہوں میں ایسا کام نہیں کروں گا۔ حدیث میں ہے کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔(متفق علیہ) مسلمانوں کی ہر عبادت نظر آتی ہے مگر روزہ صرف اسی کو پتہ ہوتا ہے جو روزے سے ہوتا ہے اس لیے کہا گیا کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اللہ ہی روزے دار کو کئی گنا بڑھا کر اجر دے گا۔ اسی لیے ایک حدیث میں حضرت ابوہُریرہ سے رویت ہے کہ رسولۖاللہ نے فرمایا ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنابڑھایا جاتا ہے جہاں تک کہ ایک نیکی دس گنا کردی اور دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا (متفق علیہ)۔ایک اور حدیث میں فرمایا گیاجو شخص رمضان میں نیکی کرے گااُس کو ایسا اجر ملے گا جیسا دوسرے دنوں میں فرض پر ملتا ہے۔جس نے اِس مہینے میں فرض ادا کیا وہ ایسا ہے دوسرے دنوں اِس نے ستر فرض ادا کئے۔رسول ۖاللہ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کو ریان کہتے ہیں اس دروازے سے صرف روزہ رکھنے والے ہی داخل ہو نگے(متفق علیہ)اللہ لوگوں کے دلوں کا حال جانتا ہے اس لیے مسلمانوں کوایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنا چاہیے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث میںرسولۖ اللہ نے فرمایا جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اُس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہونگے (متفق علیہ)مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ رمضان کی طاق راتوں میں لیلةالقدر کو تلاش کریں جو ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک حدیث ہے۔ رسولۖاللہ نے فرمایا رمضان میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا (احمد۔ نسائی) روزہ سحری کر کے رکھنا چاہیے اس میں برکت رکھی گئی ہے۔ اس لیے رسولۖ ۖاللہ نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں بر کت ہے(متفق علیہ) روزہ رکھنے سے پہلے روزے کی نیت ضرور کرنی چاہیے۔
رسول ۖ اللہ نے فرمایا جس شخص نے فجر سے پہلے روزہ رکھنے کا فیصلہ نہ کر لیا اس کا کوئی روزہ نہیں(ترمذی۔ابودائود۔نسائی۔دارمی) افطار کا وقت ہونے پر روزہ کھولنے میں یعنی افطار کرنے میں جلدی کرنا چاہیے دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسی لیے ایک حدیث میں رسولۖاللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے مجھے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں(ترمذی) روزہ افطار سے چند ساعت پہلے اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔رسولۖاللہ جب روزہ افطار کرتے تو فرماتے تھے :اے اللہ، تیرے ہی لیے میں نے روزہ رکھا،اور تیرے ہی رزق پر میں نے افطار کیا(ابودائود)رسولۖ اللہ نے فرمایا : لیلة القدر کو تلاش کرو(رمضان)کی٢١،٢٣،٢٥،٢٧،٢٩ تاریخ کی رات کو(ترمذی)حضرت عائشہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ کو وفات بخشی۔ پھر آپۖ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتے تھیں ( متفق علیہ) صاحبو! آنے والے رمضان میں ہم سب کوایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنا چاہیے اورہم سب کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ آنے والے رمضان کی برکتوں سے امتِ مسلمہ مالا مال ہو۔اللہ امت کی پریشانیوں کو خوشیوں میں تبدیل کر دے۔ آمین۔