رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی ماہِ مقدس کے آخری دنوں میں زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے لاکھوں مسلمان قریبی مساجد میں اعتکاف پر بیٹھ گئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تاق راتوں میں ایک رات ایسی ہے جسے ہزار مہینوں کی عبادت پر فضیلت دی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث 1885 ) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (بخاری، حدیث 1886)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث 1903 ) ۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ” بے شک ہم نے قرآن پاک شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے!اترتے ہیں اس میں فرشتے اور روح، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر،یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے”۔قارئین کرام !رمضان المبارک کا آخری عشرہ جہاں بے شمار اللہ تعالی کی رحمتیں سمیٹنے کے لئے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادات کا حکم دیتا ہے وہیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی ملتا ہے ہمارے معاشرہ میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں پیشہ ور گداگروں کی ٹولیاں بازاروں ،گلی محلوں ،چوراہوں،مساجدکا رُخ کرلیتی ہیں ان پروفیشنل گداگروں کی وجہ سے مستحق اور ضرورت مند افراد مالی مدد سے محروم ہو جاتے ہیں۔
زکوة ،صدقات ،فطرانہ،خیرات بڑی تعداد میں ماہ مقدس رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے اِسی بات کو ذہن میں رکھ کر پروفیشنل گداگر ٹولیوں کی شکل میں مختلف علاقوں کا رُخ ہی نہیں کرتے بلکہ بعض تو باقاعدہ دھونس زبر دستی کے ساتھ صدقہ ،فطرانہ وصول بھی کر لیتے ہیں زکوة ،صدقات ،فطرانہ سے اکثر مستحق افراد کے محروم رہ جانے کی وجہ یہ پروفیشنل گداگر بنتے ہیں جو زور زبر دستی صاحب حثیت اور درد دل رکھنے والوں سے خیرات ، صدقات ،فطرانہ حاصل کر لیتے ہیں ،ان پیشہ ور گداگروں میں معصوم بچے ،خواتین جن میں اکثریت نوجوان خواتین کی دیکھنے کو ملتی ہے ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپۖ نے فرمایا ” اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے (ابو داؤد، کتاب الزکوٰة، باب ما تجوز فیہ المسئلہ)، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ۖنے فرمایا ” جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے (مسلم، کتاب الزکوٰة، باب النھی عن المسئلہ)، حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے آپۖ کے پاس آ کر سوال کیا آپۖ نے اسے پوچھا ” تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟” وہ کہنے لگا ”ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے” آپۖ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ” وہ لے آیا تو آپۖ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا ” میں ایک درہم میں لیتا ہوں” آپ ۖنے فرمایا ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟” اور آپ ۖنے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا ” میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں” آپۖ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیںاب آپ ۖنے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا” اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید واور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپۖ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا”۔پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا۔
پندرہ دن بعد آپۖ نے فرمایا یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر بُرا نشان ہو(نسائی کتاب الزکوٰة)۔قارئین کرام !گداگر کاہل اور کام چور ہونے کے ساتھ ساتھ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر عزت نفس بیچ کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔حجة الوداع کے موقع پر دو افراد حضور پاک ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپۖاس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی مانگا آپ ۖ نے ایک نظر دونوں پر ڈالی دیکھا کہ تندرست توانا اور کمانے کے لائق ہیں آپ ۖنے فرمایا” اگر میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے سکتا ہوں لیکن سن لو کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے لائق تندرست و توانا کا کوئی حصہ نہیںہے” ( ابوداؤد)۔آپ ۖ نے فرمایا “مانگنا ایسے شخص ہی کے لیے جائز ہے جو کنگال و فقیر ہو یا سخت پریشان حال مقروض ہو، جو لوگ ان حالات کے بغیر مانگتے ہیں ان کے منہ پر روز قیامت گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہوگا “(بخاری و مسلم)۔آپ ۖ نے فرمایامانگنا تین اشخاص کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں، ایسا محتاج جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہے۔
ایسا شخص جس کے ذمے بھاری قرض ہے جس کے اتارنے کی اس میں استطاعت نہیں، یا کسی خون والے کے لیے (خون بہا ادا کرنے کے لیے ) جس کی ادائیگی اس کے لیے سخت مشقت اور تکلیف کا سبب ہو( ترمذی، ابوداؤد)۔وطن عزیز پاکستان میں 98% مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جس دین کے وہ پیروکار ہیں اس کی تعلیمات میں اورآخری نبی حضرت محمد ۖکے ارشادات میں واضح طور پر گداگری کی ممانعت فرمائی گئی لیکن ہزاروں کی تعداد میں مسلمان گداگرماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اور عید الفطر کے موقع پر جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں حکومت پاکستان نے بارہا گداگری کے خلاف کاروائی کا عزم کیا اور پروفیشنل گداگروں کے خلاف ڈھیلے ڈھالے سے انداز میں ایکشن بھی لیا گیالیکن پھر بھی گداگر وں کی تعداد کم نہ ہو سکی،ان گداگروں میں اکثریت اُن بچوں کی ہوتی ہے جو اغوا ہوجاتے ہیں پھر ان بچوں میں سے اکثر کو معذور بنا کر اس پیشے میں دکھیل دیا جاتا ہے وطن عزیز میں گداگری اب باقاعدہ ایک پیشہ بن چکا ہے ان پروفیشنل لوگوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں کوئی بھی ایک علاقہ چھوڑ کر دوسرے کی کمائی والی جگہ پر نہیں جاسکتا اس سے انتظامیہ اور گداگروں کے خلاف کام کرنے والے ادارے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود کاروائی سے گریزاں نظر آتے ہیں گداگری ایکٹ کے تحت اِکا دُکا کاروائیاں کر کے انتظامیہ مکمل خاموش ہو جاتی ہے۔