رمضان المبارک صبر کا مہینہ اور صبر کا بدلہ جنت

Ramadan

Ramadan

تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب
مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی ہے کہ رمضان المبارک رحمت، غفرت اورجہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے۔گویااس ماہ کے جو اہل ایمان کے لیے موسم بہار کی حیثیت رکھتا ہے، تین حصے ہیں۔پہلے دس دن رحمت کے، کہ روزوں اور تراویح کی بہ دولت اللہ تعالی کی رحمت متوجہ ہوتی ہے ،گویادل کی کھیتی پررحمت کی پھوار پڑتی ہے، جواس کوروئیدگی کے قابل بناتی ہے، گناہوں کے جھاڑ جھنکاڑ کو دھو ڈالتی ہے اور نیکیوں کے برگ وبارلانے کے قابل بناتی ہے، جس کے نتیجے میں جہنم کے قیدیوں کی آزادی کے پروانے جاری ہوتے، روزانہ کی بنیاد پر گویا مغفرت کے پرمٹ بانٹے جاتے اورآخری دس دنوں میں جہنم سے خلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس مبارک مہینے کی برکتیں اورسعادتیں لامتناہی ہیں۔

اللہ تعالی کی رحمت قدم قدم پر بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ساراسال گناہوں اورخالق کی بغاوتوں میں لتھڑے مسلمانوں کے لیے رب کریم اپنی رضاورضوان کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ سعادت منداورخوش نصیب لوگ ان مبارک گھڑیوں کوقدرت کا انعام واکرام سمجھ کر قیمتی بناتے، اپنے روٹھے ہوئے رب کومناتے ،گزشتہ زندگی کی غفلتوں کی تلافی اورآئندہ کے لیے ایمانی زندگی گزارنے کالائحہ عمل طے کرتے ہیں۔وہ ان بابرکت ساعات کوکمائی کی ذریعہ سمجھتے ہیں ،گویاان کواللہ تعالی کی طرف سے دستخط شدہ تیس بلینک چیک ملے ہیں کہ جتناچاہوان میں ثواب لکھو ا لو۔ اہل ایمان دنیاوی کاموں کی طرح اس ماہ مقدس کی پلاننگ بھی پہلے ہی شروع کردیتے ہیں ،کہ اللہ تعالی کے ہاں بھی اس ماہ کے لیے جنت کی تزئین کاسلسلہ ایک رمضان کے اختتام کے بعدسے ہی شروع ہوجاتاہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک ماہ قبل سے اپنے جاں نثاروحب دارصحابہ کرا م رضی اللہ عنہم کواس مہینے کی عظمتوں سے باخبرفرماکراس کی تیاری کے لیے ترغیب دیاکرتے تھے۔
اس برکت وعظمت والے مہینے کو کیسے زیادہ سے زیادہ قیمتی، موثر اورمفید بنایا جاسکتاہے؟اس ماہ فرقان کی پرکیف ساعتوں کو کس طورپر قرآنی انوارات وبرکات سے فیض یاب کیا جا سکتا ہے ؟ کیسے ہماری زندگی کے بقیہ گیارہ ماہ ایمانی سانچے میں ڈھل سکتے ہیں؟ان سوالات کے جوابات پانے کے لیے ضروری اورلازمی ہے کہ ہم رمضان کریم کو ان قواعد اوراصول کے مطابق گزاریں ،جن کاذکر ہمیں جا بجا کتاب وسنت میں ملتاہے۔غورکیا جائے تو یہ بات نکھرکرسامنے آتی ہے کہ روزے کامقصد فقط یہ نہیں کہ انسان ایک خاص وقت میں اپنے کھانے پینے اوربشری تقاضوں سے کنارہ کش ہوجائے ،بلکہ اصل مقصود و منتہی یہ ہے کہ انسانی قلب کا تزکیہ ہو،آدمی کاباطن معصیتوں کی آلودگی سے پاک صاف اوراس کے دل میں ایمان وتقوی کانورداخل ہو۔

چناں چہ تقویٰ،خشیت الہٰی اورپرہیزگاری کے حصول میں جہاں اوربہت سے امورمعاون بنتے ہیں،وہاں صبرکی اہمیت وحیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایک حدیث مبارکہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کو صبرکامہینا اورصبرکابدلہ جنت بتلایاہے۔اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں آپ علیہ الصلو والسلام نے یوں ارشادفرمایا:روزہ ڈھال ہے(گناہوں اورجہنم سے بچاؤ کے لیے)پس روزہ دار کو اس دوران نہ توفحش کلامی کرنی چاہیے اورنہ ہی جہالت ونادانی پر مشتمل گفتگو۔اگرکوئی دوسرافرد اس سے جھگڑے یا دشنام طرازی کرے تو اس کو دو مرتبہ یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔

قرآن مجیدہمیں مختلف انداز اورپیرایوں میں اللہ رب العزت کے ہاں صابرین کا مقام ومرتبہ اوران کو ملنے والے اجروثواب کے بارے میں آگاہ کرتاہے۔صبرکیاہے؟اس کا عملی زندگی میں کہاں کہاں اورکس کس موقع پر اطلا ق ہوتاہے؟بندہ مومن کے لیے اس ایمانی صفت سے متصف ہونا کیوں ناگزیر ہے؟ حضرات علمائے کرام صبرکی تین قسمیں بتلاتے ہیں۔اول یہ کہ انسان نیکی اوربھلائی کے کاموں پر مستقیم رہے۔جس نوعیت کا بھی کارخیر شروع کررکھاہے ،اس کو پوری مستقل مزاجی ،محنت اورلگن سے سرانجام دیتارہے۔دوسری قسم صبرکی یہ ہے کہ گناہوں ،معصیتوں اورباری تعالی کی سرکشیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرے۔یہ کوشش وکاوش بھی صبرکے مفہوم میں داخل وشامل ہے۔صبرکاتیسرا اورآخری درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے اوپر آنے والے ناگہانی مصائب ،بلیات اورحادثات پر برداشت ،ضبطِ نفس اورحوصلہ کا مظاہرہ کرے۔کسی بھی بیماری ،دکھ،صدمے اورمشقت پر بے صبری کا اظہارنہ ہو۔بلکہ ایسے جاں گسل لمحات اورسانحات میں دل اورزبان پر قابورکھے۔کوئی بھی ایساکلمہ جو تقدیر کے شکوے پر مبنی ہو،اس سے قلب ولسان کی حفاظت کرے۔

حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب قاسمی فرماتے ہیں کہ صبر کا تعلق ہاتھ پیر سے نہیں بلکہ قلب سے ہے اور قلب کا وظیفہ یہ ہے کہ صبر کرے اورصبر کے معنی یہ ہیں کہ بندہ رضا کا اظہار کردے کہ جو کچھ من جانب اللہ ہو ا وہ ٹھیک ہوا،باقی یہ حکم بھی ہے کہ جدوجہد کرو اورکوشش بھی کرو،ہاتھ پیر سے سعی بھی کرو، یہ صبر کے منافی نہیں ،سعی کا حاصل یہ ہے کہ اس چیز کو پانے کے لئے جدوجہد کرو جو گم ہے،لیکن جو کچھ نتیجہ نکلے اس پر راضی رہے،اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہنا بھی صبر ہے، اس میں چون و چرا بالکل نہ کریں۔

شیخ الاسلام جسٹس (ر)مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ ”آسان ترجمہ قرآن” میں رقم طراز ہیں:صبرکامطلب یہ نہیں کہ انسان کسی تکلیف یا صدمے پر روئے نہیں ۔صدمے کی کسی بات پررنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔اس لیے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔جورونا بے اختیارآجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں۔البتہ صبر کامطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالی سے کوئی شکوہ نہ ہو۔بلکہ اللہ تعالی کے فیصلے پر انسان عقلی طورپر راضی رہے۔

آج جب ہم اپنے گردوپیش پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہرمتنفس نفسانفسی،آپادھاپی اوراپنااپنی کااسیروقیدی دکھائی دیتاہے۔جگہ جگہ جلد بازی، عجلت اورتیزی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہمارے اجتماعی وانفرادی مزاجوں میں دوسروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ، غیروں کی فکر کرنا اورصبروقربانی جیسے اعلیٰ اسلامی اخلاق کی نایابی نظرآتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ بابرکت اورایمان افروز ساعتوں کواس نیت اورعزم کے ساتھ گزاراجائے ،کہ ہمارے اندر بر دباری، قناعت،نرم دلی،ضبط اورتحمل جیسی بلنداورایمانی عادات جگہ پاسکیں۔کیوں کہ ایمان کے دوحصے بتلائے گئے ہیں، آدھا شکر اورآدھاصبر۔اللہ تعالی ہمیں صبرکاخوگربنائیں اوراپنے صابرین وشاکرین بندوں میں ہمارا شمار فرمائیں۔آمین!

Molana Muhammad Jehan Yaqoob

Molana Muhammad Jehan Yaqoob

تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب
سینئر ریسرچ اسکالر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی