الحمد للہ ہم بھی اُن خوش قسمتوں میں سے ہیں جنہیں رمضان المبارک کا بابرکت کا مہینہ نصیب ہوا۔ امسال ماہِ رمضان دوبارہ شدید گرمیوں میں آیا ہے۔ روزے داروں کے لئے اللہ تعالی کی خوشنودی اور عبادت الہی کے ساتھ تزکیہ نفس کا خصوصی مہینہ رب کائنات کی بڑی رحمتوں میں سے ایک انمول رحمت ہے۔ رمضان المبارک میں روزے داروں کو صلوة ، صوم، نماز تروایح اور تزکیہ نفس و مال کے روحانی مہینے کی دل سے مبارک باد قبول ہو۔ دعا ہے کہ اس رحمت کے مہینے میں ہم اپنی عادات و مزاج میں برداشت اور اقربا ، پڑوسی دوست احباب اور سفید پوش افراد کی مالی مشکلات و تنگدستی کا احساس کریں اور اس با برکت مہینے میں نمود نمائش اور غیر ضروری اخراجات سے گریز کریں ،قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اسراف اور فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔(الاسرائ:17 ـ آیت:27)۔
ماہ رمضان برداشت و صبر وتحمل کے عالمگیر فلسفے کی تربیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ماہ رمضان کے اصل روح کو سمجھنے کے باوجود دیگر شہریوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں مہنگائی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے ۔ گھر پہنچنے کی عجلت اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمول سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے روزہ صرف گھر میں کھولا جاسکتا ہے۔ جبکہ روزہ کھولنے کے لئے ضروری نہیں کہ عام شہریوں کو پریشانی کا سبب بننے والے اقدامات کریں۔ صوم ایک عبادت ہے اور عبادت میں جلدبازی و عجلت نہیں بلکہ تحمل و صبر کا مظاہرہ کیا جانا چاہے۔ سرکاری و غیر سرکاری دفاتر و فیکٹریوں کے اوقات کار میں بھی کمی کردی جاتی ہے۔
عام دنوں کی برعکس کام کاج کرتے وقت عموماََ یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ روزے سے ہوں ۔ حالانکہ حالت صوم میں اسلام نے کسی مسلمان کو روز مرہ کے کام کاج سے نہیں روکا ۔ تاہم مخصوص روزے داروں کی آسانی کے لئے قرآن کریم میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے ہدایات و اصول مرتب کئے ہیں ، اس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلام میں اللہ تعالی نے آسانیاں زیادہ پیدا کی ہیں ۔ جبر کا تصور اسلام کا نظریہ نہیں ہے ۔ اس لئے سرکاری و غیر سرکاری دفاتر و محکموں سے لے کر تمام کاروباری مراکز اور محنت کشوں کے لئے روزے میں کام کی معمانعت نہیں ہے۔ تاہم حکومت نے روزے داروں کی سہولت کے لئے کام کے اوقات میں کمی کی ہے تو اس کے باوجود افظاری کے اوقات میں عجلت ، عدم برداشت اور تلخ کلامی جیسے واقعات سے صوم کا تصور و مقصد متاثر ہوتا ہے ۔ ہمیں اس بات سے گریز کرتے ہوئے دیگر شہریوں کی تکالیف و مسائل کا ادارک کرنا چاہیے۔
ماہ رمضان میں سب سے بڑا مسئلہ جو تمام طبقات کو یکساں درپیش ہوتا ہے وہ مہنگائی و ذخیرہ اندوزی ہے۔حکومتی اقدامات اس حوالے سے عموماََ ناکا م رہتے ہیں ۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے ادارے رسمی طور پر پرائس لسٹ اور پھل و اجناس کے درجات کے مطابق حکومتی نرخوں پر اشیا ء کی فروخت میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں ۔ اس کے لئے عام شہریوں کو خود ہی احتیاط کا دامن تھام لینے کی ضرورت ہے۔کہ ذخیرہ اندوزوں کے لالچ کے خلاف مہنگے نرخوں پر پھل فروٹ اور ایسی اشیا ء صرَف کم یا بالکل نہ خریدیں تاکہ ذخیرہ اندوزں کی حوصلہ شکنی ہوسکے ۔ ذخیرہ اندوزں کو سبق سیکھانے کے لئے عوام کو خود بھی ازخود بھی تدابیر اختیار کرنا ہونگی۔ بیشتر اوقات فضول خرچی و اسراف سے ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے متوسط و غریب طبقے کے لئے مشکلات و احساس محرومی کا سبب بن جاتے ہیں۔ صاحب حیثیت افراد متوسط و غریب محنت کش طبقے کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے نمود نمائش سے گریز کریں گے تو اس سے کمزور افراد و ان کے اہل خانہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہونگے ۔
کراچی میں کئی عشروں سے ایک خصوصی روایت کا اہتمام افطاری کے اوقات میں کیا جاتا ہے ۔ ٹریفک جام یا افطاری کے اوقات میں گھرنہ پہنچنے والوں کے لئے مختلف جگہوں پر افطاری کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مثبت اقدام ہوتا ہے ،ایسے انتظامات کرنے سے انسانی خدمت کا جذبہ و بھائی چارہ بڑھتا ہے ۔ رمضان المبارک میں لوڈ شیڈنگ نہ کئے جانے حکومتی اعلانات بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے عفریت کی وجہ سے اہل خانہ کو سحری و افطاری کے اوقات کے علاوہ تراویح میں بھی نمازیوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لوڈ شیدنگ کی وجہ سے صرف عبادات ہی نہیں بلکہ اس شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈے پانی و مشروبات کے لئے برف کی رسد میں کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ افطاری کے موقع پر دن بھر کی پیاس کو مٹانے کے لئے ٹھنڈے پانی و مشروبات ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے برف کے کارخانوں میں مطلوبہ ضروریات کے مطابق عام حالات سے بھی کم برف بنتی ہے کیونکہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کارخانے پیداورار نہیں بڑھا سکتے اور طلب و رسد میں واضح فرق کی وجہ سے برف کی قیمتیں قوت خرید سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ برف کے حصول کے لئے طویل قطاریں اور انتہائی مہنگے داموں میں برف ملنا جوئے شیر لانے کے مترداف بن جاتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پورے رمضان المبارک میں لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ نہیں دیا گیا ہے ۔ تاہم سرد خانے جنریٹر کے انتظامات کے بعد انتہائی مہنگے داموں برف فروخت کرتے ہیں۔ خاص طور پر کچی برف اور گدیلے پانی سے بنی غیر معیاری مضر صحت برف کی فروخت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے امید کی جاسکتی ہے کہ عام طبقے کی سب سے اہم ضرورت کا خصوصی خیال رکھا جائے گا۔
رمضان المبارک میں خصوصی بچت بازاروں میں برائے نام اشیا صرف کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے بلکہ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ عام بازار کے مقابلے میں رعایتی بازاروں میں اشیا کی قیمیتں زیادہ اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔ بچت بازار کا تصور ناکام ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح یوٹیلٹی اسٹورز میں حکومتی سبسڈی ملنے کے بعد اشیاء صَرف غائب ہوجاتی ہیں۔ بتایا یہی جاتا ہے کہ قیمیتوں میں کمی کی جانے والی اشیا کو ذخیرہ اندوزوں کو فروخت کردیا جاتا ہے یا پھر اس میں اتنی کمی کر دی جاتی ہے کہ مجبوراََ دوسری جگہ سے مہنگے داموںاشیا صَرف خریدنی پڑتی ہیں۔
رمضا ن المبارک میں زکوة دینے والے مستحق افراد میں زکوة تقسیم کرتے ہیں ۔ زکوة کیونکہ صاحب استظاعت پر فرض ہے اس لئے وہ اپنے مسلک کے مطابق ہی مستحقین کو زکوة دیں تاہم اس سلسلے میں راقم کی ادنیٰ سے گزارش ہے کہ بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ اکھٹنے کرنے کی نمائشی روایات کے بجائے اگر مستحق افراد کی کم تعداد کو ہی روزگار کا بندوبست کرادیں تو اس سے اگلے برس زکوة لینے والوں میں کمی آسکتی ہے۔ عموماََ دیکھا گیا ہے کہ دس کلو آٹا ، پانچ کلو چینی ،پانچ کلو گھی ، ایک پائو چائے کی پتی اور ایک پیکٹ سوئیاں کا ایک تھیلا بنا کر لمبی لمبی قطاروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس تھیلے سے مستحق افراد زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے گذارا کرسکیں گے۔
تاہم زکوة کی رقم سے اگر سب سے پہلے بے روزگار و مستحق رشتے دار ، پھر پڑوسی اوردوست احباب کو محدود پیمانے پر ہی سہی چھوٹا کاروبار اس شرط پر کرایا جائے کہ وہ بھی یہی عمل جاری رکھے گا تو اس سے غربت افلاس میں کے ساتھ بے روزگاری میں بھی کمی آسکتی ہے۔رمضان المبار ک میں کئی ایسے ادارے بھی صاحب ثروت افراد سے زکوة مانگنے کی اپیلیں کرتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ادارہ غریب و نادار افراد کی مدد کرتا ہے تو اس حوالے سے اچھی طرح پہلے خود جان لیں کہ اُس ادارے کا یہ دعویٰ سچا بھی ہے کہ نہیں ۔ یا پھر اعداد و شمار کے جھوٹے گورکھ دھندے و نمائشی تصاویر میں نام نہاد معروف و غیر معروف ادارے زکوة و فطرے کی رقم غریبوں کے بجائے اپنی آسائشوں پر خرچ تو نہیں کر رہے ہیں۔ ماہ رمضان میں صوم کا نظریہ بھوکا پیاسا رہناہی نہیں بلکہ بہت آفاقی و عالمگیر خصوصیت کا حامل ہے۔