تحریر: عبدالوارث ساجد اعتکاف: اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے کی خصوصی عبادات میں سے ایک ہے۔ نبی اکرم ۖ اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ آپ اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن کا اعتکاف فرمایا۔اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف کا لغوی معنی کسی چیز کو لازم پکڑنا اور نفس کو اس امر پر بند رکھنا خوواہ وہ چیز اچھی ہو یا بری اور شریعت اسلامیہ میں اعتکاف سے مقصود تقرب الہٰی کی نیت سے مسجد کو لازم پکڑنا اور اس میں اقامت گزیں ہونا ہے۔ (فقہ السنہ) رمضان وغیر رمضان کے کسی دن بھی اعتکاف کیا جاسکتاہے۔ نبی ۖ سے شوال میں بھی ثابت ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی تھی تو آپ ۖ نے انہیں فرمایا تو اپنی نذر پوری کر اور ایک رات کے لئے اعتکاف بیٹھ۔ً (بخاری ح ٢٠٤٣’ مسلم) لیکن سب سے افضل اعتکاف رمضان المبارک کا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
نبی اکرم ۖرمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کرلیا۔ پھر آپ کے بعد اپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ (بخاری) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ۖہر رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھتے تھے جس سال فوت ہوئے آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ اعتکاف کے لئے مسجد کا ہونا شرط ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اسے مسجد میں اعتکاف کرنا لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔”اور تم عورتوں (اپنی بیویوں یا لونڈیوں) سے مجامعت نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجدوںمیں اعتکاف بیٹھنے والے ہو”۔ (سورة البقرہ ١٨٧) لہٰذا عورتیں اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو مسجد کو ہی اختیار کریں گھروں میں اعتکاف نہ بیٹھیں اور مسجدیں ایسی اختیار کریںجہاںپردے کا اہتمام وغیرہ اچھی طرح موجود ہو۔ اعتکاف کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کی مغرب کی نماز مسجد میں اداکی جائے رات کو مسجد میں قیام کیاجائے اور اکیس ٢١ رمضان کو نماز فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں داخل ہو اور شوال کا چاند نظر آنے تک اپنا اعتکاف جاری رکھے۔ لیلة القدر اعتکاف کا ایک بڑا مقصد لیلة القدر کی رات کہ تلاش کرنا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ! اگر مجھے معلو م ہوجائے کہ یہ لیلة القدر ہے تو کیا پڑھاکروں؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو۔ اللَّہُمَّ ِنَّکَ عُفُوّ کَرِیم تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (ترمذی ح/٣٥١٣’ ابن ماجہ)
صدقة الفطر (فطرانہ) صدقة الفطر فرض ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہویا عورت آزاد ہویا غلام۔ صدقة فطر اس لئے ادا کیا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں اگر کسی فرد سے روزہ میں کوتاہی یا لغو بات وغیرہ ہوگئی ہو تو اس صدقہ الفطر کے ذریعہ اس سے پاکیزگی حاصل کی جائے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖنے روزے دار کو بے ہودگی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء اور مساکین کو خوراک مہیا کرنے کے لئے صدقہ فطر فرض کیا ہے۔ جو شخص عید کی نماز سے قبل یہ صدقہ ادا کرے تو اس کا صدقہ مقبول ہے اور جو شخص نماز کے بعد صدقہ ادا کرے تو یہ نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔”ِ (صحیح ابودائود) اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے قبل ہونی چاہئے۔
صدقہ فطر کے لئے صاحب نصاب ہونا شرط نہیں بلکہ ہر وہ مسلمان جس کے پاس اپنے لئے اور اپنے بچوںکے لئے ایک دن اور ایک رات کی خوراک سے زائد غلہ ہو اسے اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے جن میں اس کے بچے ا س کی بیویاں اور زرخرید غلام اور لونڈی شامل ہیں’ صدقہ فطر نکالنا ہوگا۔ صحیح البخاری میں حدیث ہے۔
نبی کریم ۖنے صدقہ فطر ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع جو سے غلام ‘ آزاد’ مذکر’ مونث چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیاہے۔ صدقہ فطر میںہر وہ چیزآجاتی ہے جو کسی گھر میں عموما کھائی جاتی ہے مثلا۔ چاول ‘ گندم ‘ جو ڈھائی کلو کے حساب سے دیا جائے کیونکہ ایک صاع (حجازی) ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔ نوٹ: وہ غلام جسے اجرت’ تنخواہ پر رکھا گیا ہو وہ اپنے صدقہ فطر کاخود ذمہ دار ہے الا یہ کہ مالک بطور احسان خود اپنی طرف سے ادا کردے یا غلام نے مالک پر صدقہ فطر کی شرط لگا رکھی ہو’ لیکن زرخرید غلام کا صدقہ فطر مالک کے ذمے ہے۔صدقۂ فطرکے مصارف وہی ہیںجوزکوٰة کے ہیں یعنی فقراء ومساکین اورفی سبیل اللہ دیاجاتاہے۔مجاہدین مساکین بھی ہوتے ہیں اورفی سبیل اللہ اللہ کے دین ‘ مسلمانوںکے جان ومال اوران کے تمام اداروں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں’اس لیے مجاہدین کو زکوٰة کی طرح صدقۂ فطردینازیادہ افضل ہے۔ عید الفطر کے احکام و مسائل رمضان المبارک کے بعد شوال کی پہلی تاریخ کو عید الفطر منائی جاتی ہے مسلمانوں کے لئے دو ہی عیدیں ہیں ایک عید الفطر اور ایک عید الاضحی تو عید الفطر کے احکام ملاحظہ فرمائیں۔ ٭… عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے۔ (موطا 177/1) ٭… عید الفطر کی نماز سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ (بخاری:1503′ مسلم 63/7) ٭ … صدقہ فطر کی مقدار تمام اجناس سے ایک صاع ہے۔ (بخاری 294/3′ مسلم 985) ٭ … صدقہ فطر ہر مسلمان چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت آزادہو یا غلام سب پر فرض ہے۔ (بخاری 391/3′ مسلم 984) ٭ … اگر عید کے دن جمعہ آجائے تو جمعہ کی رخصت ہے۔ (ابودائود 1070′ نسائی 194/3) ٭ … عید الفطر کی نماز سے پہلے کچھ کھا کر نکلنا سنت ہے۔ (ترمذی 542) ٭ … صدقہ فطر عید کی نماز سے ایک یا دو دن قبل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ (ابن خزیمہ 84/4 ابودائود’ 1610) ٭ … اگر صدقہ فطر نماز کے بعد دیا تو وہ عام صدقہ ہوگا صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا۔ (ابودائود 1609 ) ٭ … صدقہ فطر روزہ دار کے لئے روزے کی حالت میں سرزد ہونے والی خطائوں سے پاکیزگی اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث ہے۔ (ابودائود 1609) ابن ماجہ 1827) ٭ … عید کی نماز کے لئے نہ ہی اذان ہے اور نہ ہی تکبیر۔(مسلم 176/6 ابودائود 1148 ترمذی 532) ٭ … عید کی نماز کا وہی وقت ہے جو نماز چاشت (ضحی) کا ہے۔ (ابودائود 1135 ابن ماجہ 1317) ٭ … عیدگاہ میں عید کی دو رکعت کے علاوہ نہ پہلے نفل ہیں اور نہ ہی بعد میں (بخاری 989′,964مسلم 181,180/6) ٭ … عید کی نماز کے لئے عید گاہ میں عورتیں بھی ضرور شرکت کریں حتی کہ ایام ماہواری والی بھی عورتیں جائیں۔ لیکن وہ جائے نماز سے علیحدہ رہیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ (بخاری 351َ , 324 مسلم 179/6) ٭ …عید کی نماز خطبہ سے پہلے ادا کی جائے۔ (بخاری 962′ مسلم 171/1) نوٹ:۔ نماز عید کے لئے دو خطبوں کاثبوت صحیح احادیث میں موجود نہیں۔ صحیح روایت میں ایک ہی خطبہ کا ذکر ہے۔ ٭ … عید گاہ میں جس راستہ سے جائیں واپسی پر وہ رستہ بدل کر جائیں۔ ٭ … اگر بارش وغیرہ ہو تو نماز عید مسجد میں ادا کی جائے اس بارے مرفوع روایت ابودائود میں (1160) وغیرہ میں ابوہریرہ tسے مروی ہے لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن عبدالاعلیٰ مجہول راوی ہے اور اس کا استاد عبداللہ بن عبید بن موہب مستور ہے۔ ٭ … عید گاہ میں جاتے ہوئے بلند آوازسے تکبیریں کہنا صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمة اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ (ابن ابی شیبہ 488) ٭ … عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے تکبیر کے یہ الفاظ مروی ہیں اللہ اکبر کبیرا اللہ اکبر کبیرا اللہ اکبر واجل اللہ اکبر وللہ الحمد (ابن ابی شیبہ 489/1) ٭ … سلمان رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا (فتح الباری 462/2) ٭ … اور عبداللہ بن مسعود tسے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد (ابن ابی شیبہ 488/1) ٭ … نماز عیدکا وہی طریقہ ہے جو عام نماز کا ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراة سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (ابودائود1150 ابن ماجہ 1280) ٭ … عید کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور دوسری میں ھَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ پڑھیں۔ (مسلم 167/6 ابودائود 1122 نسائی 112/3) یا ق o وَالْقُرْآَنِ الْمَجِیْدِ اور اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۔ پڑھیں۔ (مسلم 181/6 ابودائود 1154 ترمذی 534) ۔ شوال کے چھ روز ے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد چھ روزے رکھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم e نے فرمایا مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر اس کے پیچھے شوال کے چھ روزے رکھے تو اس کو سال بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ (صحیح مسلم [محدثین نے اس کی یوں وضاحت کی ہے کہ رمضان کے روزے الحسنة بعشر امثالھا کے تحت 300 اور چھ روزے 60 روزوں کے برابر ہوں گے اور تیس روزے رمضان کے گویا کہ کل روزے 36 ہوئے اب ان کو 10 کے ساتھ ضرب دیں تو یہ 360 ہوئے ۔ ادھر غور کریں قمری سال کے 360 دن ہوتے ہیں گویا ایک مسلم صائم الدھر ” (ہمیشہ روزے رکھنے والا) شمار ہوگا۔
اس اعتبار سے شوال کے یہ چھ روزے نفل ہونے کے باوجود بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر مسلمان کو رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ یہ چھ روزے بھی رکھ لینے چاہئیں تاکہ عند اللہ وہ صائم الدھر شمار ہو۔ نوٹ یہ چھ روزے عید کے بعد مسلسل بھی رکھے جا سکتے ہیں اور پورے شوال میں وقفے بعد وقفے پر بھی رکھے جا سکتے ہیں اور اس کے لئے اگر عید کے بعد پہلے دن نہ بھی روزہ رکھا جائے تو اس سے اگلے دن رکھا جا سکتا ہے۔