رمضان، قرآن اور ہمارا طرز عمل

Ramadan

Ramadan

تحریر : محمد آصف اقبال

انسان کی یہ فطری خواہش ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ترقی حاصل ہو۔وہ جس مقام پر ہے آنے والے وقت میں اس سے کہیں زیادہ کامیابی و نصرت کے اعلیٰ ترین مقام پر وہ فائذ ہو۔لیکن کامیابی اسے کیسے حاصل ہوگی؟اور ترقی کے اعلیٰ مقام پے وہ کیسے پہنچے گا؟ اس کا کوئی واضح اورمدلل جواب وہ نہیں رکھتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی و کامیابی اور عزت و تکریم کے لیے مختلف طریقہ اختیار کرتا ہے۔کبھی وہ رائج الوقت طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کرتا ہے جو اس کی نظر میں “کامیاب “ہیں تو کبھی اُن طریقوں کو استعمال کرتا ہے جو عرف عام میں “کامیابی “کی منزل تک لے جانے میں معاون و مدد گار ہیں۔کامیابی کی دوڑ میں چونکہ رائج الوقت طریقوں میں اخلاقی حدود کی کوئی حیثیت نہیں نیززندگی کا ہر شعبہ اخلاقی حدود سے آزاد ہے۔لہذا”سمجھدار اور کامیاب”لوگ وہ کہلاتے ہیں جو ہر قسم کی پابندیوں اورجکڑ بندیوں سے آزاد رہتے ہوئے معاشی و معاشرتی سطح پر ترقی کرتے چلے جائیں۔اور چونکہ یہ تصور عام ہے کہ زندگی ایک بار ہی ملی ہے لہذا تمام ترم خوشیاں سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ایک زندگی سے خوب خوب لطف اندوز ہوا جائے۔اوریہ جو چہار طرفہ مسائل ہیںمثلاً”دہشت گردی”، بد امنی،مذہبی جنون،فرقہ واریت،روایت پسندی،دقیانوسیت اور پھریہ مسائل بھی جن میںبے سکونی،ڈیپریشن،نفسیاتی بیماریاںاپنے عروج پرپہنچ چکی ہیں ،یہ سب اُن ہی بیماریوں کا منبع ہے جن کو اخلاقی حدود سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لہذا اُن لوگوں کی جڑہی کاٹ دی جائے جو اس طرح کی باتیں ، وعظ و نصیحت اور متبادل پیش کرتے ہیں۔اس پس منظر میں موٹے طور پر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ایک زندگی کے تمام شعبہ حیات میں اخلاقی حدود و قیود کی پابندی کرنے والے افراد و اقوام تو دوسرے وہ جو اخلاقی حدود و قیود کوریاست اور فرد کی ترقی میںسب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

جس وقت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپۖ نے اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت بھی کچھ ایسے ہیحالات تھے۔زنا اور بدکاری کو نکاح کا درجہ دیا جاتا اور معاشرہ اس کو تسلیم بھی کرتا۔بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور اس میں اپنی بڑائی اور خوبی سمجھی جاتی۔قبائیلی عصبیت اپنے عروج پر تھی اورایک نہ ختم ہونے والا لڑائیوں کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔شراب نوشی عام بات تھی جس کے نتیجہ میں بدکاریاں فروغ پاتیں۔انسانوں کے انسان ہی غلام تھے،رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی اور حکومتیں اسے لذتوں،شہوتوں،عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتیں۔شرک اور بت پرستی اپنے عروج پر تھی، نذرانے اور قربانیاں پیش کی جاتیں اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کی جاتیں۔سودی لین دین اور معاشی استحصال کا بازار گرم تھا۔فال گیری،کاہنوں، نجومیوں کی خبروں پر ایمان اوربد شگونی کا رواج عام تھا۔عقیدہ اور فکرکی گمراہیاںاس قدر عام تھیں کہ تصورِ آخرت ایک مذاق بن چکا تھا۔یہ اور اس قسم کی بے شمار گمراہیاں،ظلالتیں،بدکاریاں اور زیادتیاں تھیں جس کے نتیجہ میںوہ معاشرتی اور تمدنی سطح پر اخلاقی حدود وقیود سے یکسرعاریتھے۔ساتھ ہی یہودی مذہب محض ریاکاری اور تحکم بن گیا تھا،یہودی پیشوا اللہ کی بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔عیسائیت ایک نا قابل فہم بت پرستی بن گئی تھی،اس نے اللہ اور انسان کو عجیب و غریب طرح سے خلط ملط کر دیا تھا۔باقی ادیان کا حال بھی مشرکین جیسا ہی تھاکیونکہ ان کے دل یکساں تھے،عقائد ایک ہی جیسے تھے اور رسم ورواج میں ہم آہنگی تھی۔ان ہی حالات میں کا واقعۂ عظیم رونما ہوا،یہ وہ واقعہ تھا جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی،معاملہ قرآن کے نازل ہونے کا تھا۔

ہم جانتے ہیں کہ قرآن وہ فرقانِ عظیم ہے جس نے انسانوں پر دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو بہت ہی واضح انداز میں پیش کیا ہے۔جم غفیر جن تاریکیوں میں مبتلا تھی اس کے سامنے وہ روشنی منور کی جس کے ذریعہ صراط مستقیم عیاں ہو گئی۔کامیابی اور ناکامی کی راہیں متعین کیں اور ذلت ورسوائی سے نکال کر عزت وشرف کا مقام بخشا۔اس عظیم تبدیلی کا لازمی تقاضہ تھا کہ انسانوں کے گروہوں پر قرآن کے کچھ حقوق لازم کر دیے جائیں۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک بار خطبے میں) ارشاد فرمایا :” یہ کتاب الہی( تمہارے ہاتھوں میں ) اللہ تعالی کی رسی ہے ، جس نے اسکی اتباع کی وہ راہ ہدایت پر گامزن رہا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے راہ ضلالت اختیار کی”(صحیح مسلم)۔اس حدیث سے میں بتایا گیا ہے کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا وہ حقیقی کلام ہے جو اس کے بندوں کی طرف نازل کیا گیا ہے،اب جو شخص اور قوم اس کو مضبوطی سے تھامے گی وہ کامیاب ٹھہرے گی اور جواس کو پس پشت ڈالے گا وہ ہلاک ہو نے والوں میں شامل ہوجائے گا۔اسی بات کاتذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے رسولۖ نے حجةالوداع کے موقعہ پر ایک عظیم مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اوردو:نبیۖ کی سنت”۔واقعہ یہ ہے کہ یہ کتابِ عظیم یقینا ہماری ہدایت کی ضامن ہے لیکن ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ اس کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔قرآن کے پانچ اہم حقوق ہیں، جن کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔

پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے۔ہر شخص پر واجب ہے کہ اس کتاب کے کلام الٰہی ہونے اور رہتی دنیا تک تمام لوگوں کیلئے کتاب ہدایت ہونے پر ایمان لائے ۔کہا کہ :” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔”( سورة النساء :١٣٦)۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، جو لوگ اس کو حق کو نہیں مانتے ان سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اْسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اوردشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔

آیت میں خطاب ان تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں” میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے وہ سچے مومن بن جائیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی ایمان کی متقاضی ہے کہ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیئیس سالہ نبوی زندگی پر محیط ہے،یہ کتاب آج بھی بغیر کسی کمی اور زیادتی کے اسی حالت میں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے جس طرح یہ پہلی دفع نازل ہوئی تھی۔اس میں مذکور ہر چیز کی تصدیق کی جائے ، ہر حکم اور ہر نہی کو حق اور عدل و انصاف پر مبنی برحق مانا جائے نیز ا س میں جو چیز حلال ہے اسے حلال اور جو چیز حرام ہے اسے حرام سمجھا جائے،نیز اس کتاب کوقیامت تک کیلئے کتاب ہدایت سمجھا جائے ۔ یہ کتاب آخری رسول محمدۖ پر نازل ہونے والی آخری کتاب اللہ ہے لہذااب اسے کسی نبی کی تعلیم منسوخ نہیں کرسکتی ۔دوسرا حق اس کی تلاوت ہے۔یعنی قرآن کے ایک ایک لفظ کو سمجھ کے پڑھا جائے۔تیسراحق اس پر عمل۔چوتھااس پر تدبر اور تفکر ہے۔اور پانچواں حق اس کی تعلیم و تبلیغ اور اس کا قیام ہے۔ضرورت ہے کہ ہم اور آپ فرداً فرداً اپنا جائزہ لیں،احتساب کریں اور جس درجہ بھی کمی محسوس کریں اس کمی کو اپنی زندگی سے دور کردیں،اللہ ہمیں توفیق سے نوازے،آمین!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com