اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رمضان المبارک جہنم سے آزادی اور جنت کے حصول کا مہینہ ہے، اس میں نیکیوں کا اجر ستر گناہ بڑھ جاتا ہے، مگر اس میں کامیابی انسانیت کی خدمت اور ہمدری سے ہی ہمیں مل سکتی ہے ،یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ یقینی طورپر جنت ہے، رمضان المبارک میں ضروریات زندگی سمیت اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کمی کردینی چاہیے مگربدقسمتی یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان شریف آتے ہی ہر آدمی ایک دوسرے کو لوٹنے میں مصروف ہوجاتاہے ،چاہے وہ سبزی والا ہو،چاہے وہ گوشت والاہو،فروٹ والا ہو یاپھر کپڑے بیچنے والا ہو،افسوس کہ عام دنوں کی نسبت اس عبادت کے مبارک مہینے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتاہے ، یعنی یہ صدقہ اور خیرات کرنے کا مہینہ ہے مگر بعض لوگوں نے اسے لوٹ مارکا مہینہ بنادیاہے ،اس قدر مہنگائی بڑھ جاتی ہے کہ عام دنوں کی نسبت جو غریب آدمی اپنے بچوں کو بمشکل دوقت کا کھانا کھلاتاہے وہ اس مبارک مہینے میں ایک وقت کے کھانے کو بھی ترس جاتا ہے۔
مغربی ممالک میں مذہبی تہوار کرسمس اور دیگر ایونٹس کے آنے سے پہلے ہی بہت سے بچت بازار لگادیئے جاتے ہیں جس میں ضروریات زندگی کی چیزیں نہایت ہی کم قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں ،ہماری حکومت بھی بہت سی چیزوں پر سبسٹڈی دیکر یوٹیلٹی اسٹوروں کے زریعے قیمتیں کم کرتی ہے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں یوٹیلٹی اسٹورز کا کا نیٹ بہت چھوٹا ہے جسے پھیلانے کی ضرورت ہے مگر المیہ یہ ہے کہ بہت سے دکاندار یوٹیلٹی اسٹوروں سے سستی اشیاء لاکر اپنی دکانوں پر جاکر مہنگے داموں یعنی بازاری نرخوں پر فروخت کردیتے ہیں ،اور الزام کچھ عناصر کی جانب سے حکومت پر ڈال دیاجاتاہے جو کہ سرار غلط اقدام ہے۔
حالانکہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت رمضان المبارک میں اس قسم کے بازار جگہ جگہ قائم تو کرلیتی ہے مگر منافع خوروں کی وجہ سے حکومت کا ہر اچھا اقدام بھی تنقید کی نظر ہوجاتاہے،جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام وہ لوگ جو ریڈھی بان ہیں حتیٰ کے بڑے بڑے تاجر ہیں ان کے دلوں میں جب تک خوف خدانہیں ہوگا مخلوق سے محبت کا جزبہ بھی بیدارنہیں ہوسکتاہے جب تک تمام تاجر تنظیمیں رضاکارانہ طورپر قیمتیں کم کرکے اپنے ہی ممبردکانداروں کے زریعے سستی قیمت پر لوگوں کو مہیا نہیں کرینگے عام آدمی کو اس کا فائدہ نہیں پہنچنے والا،ان دکانداروں اور تنظیموں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ سال میں ایک مہینے ہی یعنی کم ازکم رمضان المبارک میں ہی اپنا کچھ منافع کم کردیں تو یہ پیسے کمانے کے ساتھ آخرت سنوارنے اور نیکیاں کمانے کا زریعہ بھی بن سکتاہے اس سے جہاں ہمارے ملک میں غریب طبقوں کی مدد ممکن ہوسکے گی وہا ں وہ اپنے اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں بھی شریک ہوجاتے ہیں ، اسی طرح ہمارے یہاں ایسے بھی خداترس لوگ موجود ہیں جو مساجد کے زریعے ،ہوٹلوں کے زریعے یا پھر شاہرائوں اور سڑکوں پر اپنی مدد آپ کے تحت روزہ کھلوارہے ہوتے ہیں اور بہت سے غریب پرور لوگوں نے سحری کے انتظامات بھی کیئے ہوتے ہیں۔
ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اس لائق نہیں ہوتا کہ وہ روزے دار کو روزہ افطار کرواسکے۔تو رسول کریم ۖ نے ارشاد فرمایاکہ پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ضروری نہیں یہ تو ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا ایک گھونٹ پانی پلانے پر بھی دے دیتاہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان بچے اسکولوں اور کالجوں کے لڑکیاں اور لڑکے اکثر روزہ کھلنے سے کچھ دیر قبل سڑکوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں طرح طرح کے کھانے ،ٹھنڈے مشروبات اور کھجوریں موجود ہوتی ہیں جہاں وہ گرمی کے ستائے روزے داروں کی سواریاں روک روک کر انہیں روزہ افطار کروارہے ہوتے ہیں آپ خود ہی سوچیئے کہ یہ کتنا روح پرور منظر ہوتاہے جو لوگ اس قسم کی سرگرمیوں میں اپناکرداراداکررہے ہوتے ہیں وہ جہاں اللہ کی خوشنودی حاصل کررہے ہوتے ہیں وہاں ایک عجیب ساقلبی سکون بھی ان کو مل رہاہوتاہے جو کسی بھی لحاظ سے ایک منافع خورکو چار پیسے زیادہ کماکر بھی مسیر نہیں ہوسکتا،نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے رمضان المبارک کا مہینہ پایااور اللہ کو راضی کرکے اپنے گناہ معاف نہ کرواسکاتو اللہ اس کو زلیل ورسواکرے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کچھ دکاندار اشیاء خوردونوش،جس میں راشن بیگز،آٹا،دالیں ،چاول ،گھی ،بیسن ،مصالہ جات اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء شامل ہیں اور خاص کر ریڈی میڈ کپڑوں کی قیمتوں میں بھی قیمتیں کم کرکے عوام کو بیچیںتو یہ بہت بڑی نیکی ہوگی ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی دکانوں میں تو مہنگائی کا طوفان آیا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ درزی جو ایک سوٹ کی سلائی میں عام دنوں میں پانچ سو روپے تک وصول کرتاہے اس کے ریٹ بھی ڈبل ہوچکے ہوتے ہیں ،بھلا ایسے ماحول میں ایک مزدور جس کی دن بھر کی کمائی ہی پانچ سو روپے ہووہ بھلا کس طرح سے عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکتاہے اس کے لیے تو روزہ رکھنا اور کھولنا بھی ایک مہنگا ترین عمل بن چکاہوتاہے ،ان تمام باتوں کا ایک ہی حل نکلتاہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے حصے کا دیا جلائے اور یہ سمجھیں کہ ہمیں اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے اور ہم ان تمام معاملات میں اسے جواب دہ ہیں۔
مجھے امید ہے میرایہ پیغام جہاں جہاں بھی پہنچے گا اگراس پرعمل ہواتو یہ عید پاکستان میں حقیقی خوشیوں کا تہوار بن کر ہمارے گھروں میں داخل ہوگی ،میں سمجھتاہوں کہ اس عمل سے ہمارے کاروباربھی چلتے رہے گے اور عوام کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی ،کیونکہ عوام جو چیزیں خریدنا چاہتے ہیں اگر وہ چیزیں ان کی قوت خرید میں ہوتوکس طرح ممکن نہیںکہ وہ عید کی خوشیوں میں شامل نہ ہوسکیں اسی وجہ سے کم قیمتیں کرنے کی مثال میں اوپر کی تحریر میں مغرب کے حوالے سے دے چکاہوں، بس ایک بار ہمارے ملک میں بھی عمل کی ضرورت ہے یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں رمضان المبارک میں سبھی لوگ منافع خوری میں لگ جاتے ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس نیک مہینے میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پہنچ سکے ،ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت نے تاجر برادری کے تعاون سے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی بنارکھی ہیں جن کا کام اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے لیکن بات وہ ہی ہے کہ جب تک خود سے تاجر تنظیمیں اور تاجر طقبے کے لوگ خود ہی رضاکارانہ طورپررمضان المبارک میں قیمتیں کم نہیں کرینگے لوگ اسی طرح مہنگائی کا رونا روتے رہینگے کیونکہ اس احساس کا انسان کے اندر سے جنم لینا بہت ضروری ہے اگرایسا ہوگیا تو جہاں اللہ کی خوشنودی ہماری منتظر ہوگی وہاں تاجر طبقے کا احترام بھی عوام کی نظروں میں بڑھے گا کیونکہ رمضان المبارک میں ضروری اشیاء کی قیمتیں کنٹرول رکھنے کے لیے حکومتی کوششوں کا ہونا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس میں ایک ایک آدمی بھی اپناکردارکرے تو غریب عوام کو وہ تمام سہولیتیں میسر ہوسکتی ہیں جس کا وہ اور اس کے معصوم بچے حق دار ہیں۔اور اس عمل سے حکومتی اقدامات سے بھی عوام کی منفی رائے کا تاثر زائل ہوجائے گا کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ رمضان المبا رک میں چھوٹے دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں اور بدنامی حکومت کو اٹھانا پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کرجب کوئی دکاندار منافع بڑھاتاہے تو اس سے دکاندار کو تو فائدہ ملتاہے مگر حکومت کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا،ان میں سے بیشتر لوگ تو پوراٹیکس بھی ادانہیں کرتے،اس لیے ایک عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ قیمتوں کے بڑھنے کی تمام تر زمہ داری حکومت پر نہیں ہوتی اس میں دکانداروں ،آڑھتیوں اور دیگر متعلقہ لوگوں کا بھی کردارہوتاہے لہذا میں ان تمام متعلقہ لوگوں سے اس تحریر کے زریعے اپیل کرتاہوں کہ وہ رمضا ن المبارک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں رضاکارانہ طورپر کمی کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ختم شد