صحیح بخاری 1886 حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار بیچ و بیچ رمضان کے آپﷺ باہر تشریف لے گئے اور مسجد میں تراویح کی نماز پڑہی اور وہاں کچھ لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑہی جب صبح ہوئی تو ان لوگوں نے اس کا چرچا کیا اور دوسری رات کو زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور آپﷺ کے ساتھ نماز پڑہی صبح کو لوگوں نے اور زیادہ چرچا کیا اور تیسری شب کو بہت لوگ جمع ہو گئے آپ برآمد ہوئے اور نماز پڑہی لوگوں نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑہی جب چوتھی رات ہوئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد میں ان کا سمانا مشکل ہوگیا آپ برآمد نہیں ہوئے صبح کو نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور نماز کے بعد آپﷺ نے تشہد پڑہا پھر فرمانے لگا اما بعد مجھے معلوم تھا کہ تم یہاں اکٹھے ہو لیکن میں ڈرا کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے اور وہ تم سے نہ ہو سکے (اسلیے برآمد نہیں ہوا) پھر آپﷺ کی وفات ہو گئی اور یہی کیفیت قائم رہی بحوالہ صحیح بخاری خانہ کعبہ کی رونقیں یاد آتی ہیں اور اب اسکی ویرانی خون کے آنسو رلاتی ہے مسجد نبوی کے وسیع وعریض صحن اور بلند و بالا چھتیں اور ان میں اللہ کا نام اور آیات مبارکہ اور پھر پیارے نبیﷺ کے روضہ مبارک کی زیارت سب کا سب جیسے حسین خواب حرمین شریفین میں مکمل پابندی مساجد بند اور کسی کو سوال کی اجازت بھی نہیں اور کوئی سراپا احتجاج بھی نہیں باشعور قوم ہے جانتی ہے کہ مقدس مقامات وبائی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور قیمتی جانوں کی حفاظت کیلیۓ عارضی طور پر بند ہیں وبا سے چھٹکارہ ملتے ہی انشاءاللہ وہی رونقیں وہی مسکراہٹیں اور وہی عبادتوں کی طوالت ہوگی اللہ کب چاہتا ہے کہ اس کے بندے عبادت کے ایسے زاویے سے متعارف ہوں جس میں موت ہے تکلیف ہے دکھ ہے پیارے نبیﷺ رحمت اللعالمین کب چاہیں گے کہ ان کے دیوانے ان کی زیارت کو آئیں اور موت کے آہنی پنجے انہیں دبوچ لیں اسلام بہت ہی پیارا اور شفیق دین ہے ایک طرف رب کریم کا فرمان ہے کہ میں نے اپنی رحمت کو اپنی ذات پر حاوی کر رکھا ہے اور دوسری طرف پیارے نبی رحمت اللعالمین آسمان اور زمین دونوں کے حسین امتزاج سے بنا یہ دین پیغام اتارا جاتا ہے جبرئیل امین کے ذریعہ سے پیارے نبی ﷺ پر ذرا غور کریں آسمان اور زمین کا یہ گہرا رابطہ ہمیں کچھ کہہ رہا ہے دین میں جبر نہیں آج جب عالم اسلام خواہ وہ سعودیہ ہو یا اسلام کا جگمگاتا روشن ستارہ ترکی ہو یا انڈونیشیا یا ملائیشا کہیں سے آپکو صدائے احتجاج سنائی نہیں دے گی پاکستان اب تک خوش قسمت رہا کہ اس وبا کی موجودگی میں بھی قیامت خیز ہلاکتیں نہیں ہوئیں ابھی تک یہ غفلت ہے کہ ٹیسٹ مناسب انداز سے نہیں ہوئے یا اللہ پاک کو عرصہ دراز سے مرتی عوام پر رحم آگیا کہ شرح اموات کا وہ خوفناک سلسلہ جو ہم یورپ اور امریکہ میں دیکھ رہے ہیں وہ اللہ کے کرم اور رحمت سے پاکستان میں نہیں اور نہ ہی ہو لیکن ملک کے علمائے کرام کے ساتھ حکومتی بات چیت صرف ایک ظاہری تاثر نہیں دکھائی دے رہی تھی جیسے فیصلہ پہلے سے کہیں اور ہو چکا تھا کیا کرونا کی موجودگی میں مساجد کھولنے کا اعلان مناسب ہے؟ ہم سب جانتے ہیں پاکستان ایک غریب ملک ہے یہاں چلائے جانے والے مدارس گو کہ کہا یہی جاتا ہے کہ حکومت پاکستان چلاتی ہے لیکن مختلف مسالک کے یہ ادارے بیرونی امداد سے چلتے ہیں ہم یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دینی اداروں کیلئے ماہ رمضان روپے پیسے کی بہتات لے کر آتا ہے فراخدلی کا مہینہ ہے کیونکہ نبی پاک ﷺ اس مہینے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے قرآن کے دور کیلئے جبرئیل امین جو تشریف لاتے تھے بڑے مدارس کا طاقتور نظام ہے لیکن چھوٹے چھوٹے مدارس جہاں دور دراز کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں غریب طالبعلم قرآن کا حدیث کا اور کئی طرح کا دینی علم لیتے ہیں انکے لئےماہ رمضان کا مہینہ گویا سال بھر میں اخراجات کی مد میں پیسوں کا جمع ہونا ہے مساجد کا بھی یہی حال ہے ماشاءاللہ رمضان قرآن کے ساتھ اور لوگوں کے کھلے ہاتھ سے دیے ہوئے پیسے ایک خوبصورت پاک نظام ہے دین کا حکومت وقت کی اہم ترین اور اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی حکومت کو چاہیے تھا کہ کمزور اداروں کی مساجد کی کسی بھی طرح سے مالی معاونت کرتی جیسے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کی کفالت کا ذکر بار بار عوام میں کیا جاتا ہے کہ کہیں بھوک سے نڈھال مشتعل عوام سڑکوں کا گھیراؤ نہ کر لیں مساجد میں جانے کے بعد مقرر متعین فاصلہ قائم رکھنے کا کون کہے گا؟ اور رمضان ہے ہر کوئی خواہش رکھتا ہے روحانی سکون کی رش کی صورت نتائج کی ذمہ داری کل کو حکومت علمأء پر ڈالے گی یا علماء حکومت پر ؟ حکومت کا شور طاقت کا اظہار دبنگ انٹری صرف اپوزیشن کے خلاف دکھائی دیتی ہے آج نجانے مجھے کیوں حکومت تحفظ عامہ پر پسپا دکھائی دے رہی ہے حکومت نے کرونا کو طبی ماہرین کو بلا کر اس کےمضمرات سے علمائے کرام کو آگاہ کر کے قائل کرنے کی بجائے ان کے آگے ہی گھٹنے ٹیک دیے بالکل ویسی سپاہ کی طرح جو دشمن کے بھاری بھرکم اسلحے کو دیکھ کرفورا ہی ہتھیار ڈال دے کہ اتنے طاقتور دشمن سے کیا لڑنا جس کے پاس اندازے سے زیادہ ہتھیار اور بھاری اسلحہ ہے کرونا جیسے زہریلے موذی مرض کی موجودگی میں اعلان مساجد کھلی رہیں گی؟ رمضان میں روزہ ہو اور ملک میں وبا ہو ایسی حالت میں یقینی طور پے کسی انسان کی موت شھادت کا درجہ رکھتی ہے لیکن از خود چل کر وبا کے ہوتے ہوئے رش میں جانا اس طرح کی موت کیا خود کشی نہیں کہلائے گی؟ میں گومگوں کیفیت میں ہوں کیا حرج ہے اگر اس سال گھروں کو عبادت گاہ بنا کر رحمتوں سے مالا مال کر دیا جائے والدین جو مدتوں سے اس نئے دور کی وبا نیٹ کی وجہ سے اولاد سے دور بہت دور ہیں ان کیلیے نادر موقعہ ہے وہ نہ صرف عبادات یوں کریں کہ بچوں کو اسلام کی روح سمجھ آئے درست اسلام دیکھ کر غلطیاں سدھاریں بلکہ والد گھر میں جماعت کروا کے اسلام کا نیا روشن باب رقم کر سکتے ہیں سمجھ سے بالا تر ہے آج کے اس فیصلے کو تاریخ حکومتی ناقص کارکردگی کہے گی یا عوام کی اجتماعی خود کشی ؟ اور آبادی کو سکڑتے اور کرونا کو پھیلتے دیکھ رہی ہوں عوامی مسائل پر حکم حکومت کا چلنا چاہیے تھا یا پھر کسی بھی شعبہ کا ؟ اسلام پر اللہ پر نبیﷺ پر جان بھی قربان لیکن اپنے دماغ کا کیا کروں جس نے دین کے کچھ حرف پڑھ لئے کہ یہ اعضاء اللہ کا انعام ہیں جوابدہی ہے ہمیں جواب دینا ہے کہ کتنی قدر کی ان سب کی ؟ کیا جواب دیں گے کہ جانتے بوجھتے رش والی جگہہ پر اے میرے رب تیری عبادت کرنے گئے جبکہ قرآن مجید تو مومن کو فرقان کی یعنی حق و باطل کا شعور سکھاتا ہے آج جو اعلان ہوا بجھے چہروں اور پسپا لہجے کے ساتھ کیا مذہبی اصطلاح استعمال ہوگی اس کے لئے؟ شھادت یا خود کشی