رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں کو بکھیرتا جلوہ نما ہو چکا۔ آج جب میں اپنے ناقص الفاظ کو تحریر کر رہا ہوں، چوبیسواں روزہ ہے۔ حکومت کی جانب سے سستے رمضان بازاروں اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کے دعوے، پچھلی حکومت کی ڈکشنری کے مطابق کوئی قرآن وحدیث کے الفاظ نہ تھے اور موجودہ حکومت کے الفاظ میں جوش خطابت میں کہی گئی بات ہی ثابت ہوئے۔
عوام کو مہنگائی کی چکی میں خوب پیسا جاتا رہا، رمضان بازاروں میں ناقص اشیاء برائے فروخت تھیں تو واپڈا کے ستم میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ سحر و افطار اور نماز تراویح کے اوقات میں بجلی کی بندش نے روزہ داروں کا جینا حرام کئے رکھا۔ جیسے جیسے عید کا دن قریب آرہا ہے، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
الغرض رمضان المبارک جہاں بے شمار فیوض و برکات لایا وہیں غرباء کے لئے مہنگائی کا وہ طوفا ن لایا جس کا گراف شاید اب عید کے بعد بھی کم نہ ہو سکے۔ عام انتخابات کو غرباء اپنے لئے خوشگوار خیال کر رہے تھے اور پی پی پی سے راہ نجات کا ذریعہ سمجھ رہے تھے۔ لیکن اب ہر نادار کے لبوں پہ اک ہی بات ہے
کچھ نہیں بدلا، وہی ذلت، وہی بے چار گی روشنی اب بھی اُسی اندھیر کے پنجرے میں ہے ہو مبارک قوم کو پھر خودکشی کا فیصلہ ” تِیر” سے زخمی بدن اب ” شیر” کے پنجے میں ہے پچھلے دنوں ن لیگ کے خواجہ آصف کا یہ بیان کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کے لئے تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہے اور الیکشن کمپین میں کئے گئے وعدے جذباتی باتیں تھیں، حکومت میں آ کے پتہ چلا کس بھائو بکتی ہے، اس غریب قوم کے منہ پر اک زور دار طمانچہ ہے۔ گویا عوام کے مقدر میں صرف وعدے ہی آئے ہیں۔
Load Shedding
اک طرف لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کوئی کمی نہیں لائی جا سکی تو دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ جلتی پہ تیل کا کام کر رہا ہے۔ یہی صورت حال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی ہے جس سے براہ راست غریب آدمی متاثر ہوتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار، کسان اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا والا طبقہ اس چکی میں پستا دکھائی دیتا ہے۔
عجیب سا معاملہ ہے کہ اگر بجلی یا تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہر ہر چیز حتی کہ اک ماچس کی قیمت میں بھی من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور قیمتیں کم ہونے پر کبھی یہ اضافہ واپس نہیں لیا جاتا۔ ستم یہ کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ہیں۔ کوئی سوال اٹھائے تو “خزانہ خالی ہے”کہہ کر آنکھوں پر پٹی باندھنے کی بھونڈی سی کوشش کی جاتی ہے۔ او بھئی! اگر خزانہ خالی ہے تو وہ خالی کس نے کیا۔
تین سو کمانے والے اک دیہاڑی دار نے یا سات ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والے نے کیا؟ یہ کیا تو آپ جیسے سیاستدانوں نے ہی ہے جن کے ہاتھوں میں یہ سب کچھ تھا۔ جس کرسی پہ آپ آج بیٹھے ہیں، یہیں کل وہ لوگ بیٹھے تھے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ آپ اگر اس قدر ہی مخلص ہیں توآج لائو وہ پیسے واپس، کرو ان کا محاسبہ، لائو قانون کے کٹہرے میں ان کرپٹ عناصر کو، خزانے کو خالی کرنے والوں کو لائو عدالت میں، ان کے لوٹے کو عوام سے کیوں برآمد کروا رہے ہو۔درحقیقت اس کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے کہ جس کے ہاتھ آ جائے اسے پھر عوام مرتی نظر ہی کب آتی ہے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے کرتوتوں کا خمیازہ اس غریب عوام کو کیوں بھگتنا پڑتا ہے۔ آخر کب تک اس عوام کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی رہے گی۔کب تک یہ چند خاندان عوام کو بہلا پھسلا کر اس کے حقوق غصب کرتے رہیں گے، کب تک ہمارا استحصال ہوتا رہے گا۔ کب تک، آخر کب تک۔