رانا عبدالرب کے حوالے سے

Seraiki

Seraiki

تحریر: ظہور دھریجہ
”سرائیکی صوبہ اور ظہور دھریجہ” کے عنوان سے رانا عبدالرب نامی ایک نوجوان نے ”جیو اُردو” میں اپنی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ روزنامہ ”خبریں” میں ظہور دھریجہ نے سرائیکی خطہ کے مقدمہ کے سلسلے میں سرائیکی خطہ کی عوام کی ہمدردیاں یرغمال بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس بارے گزارش یہ ہے کہ عبدالرب نامی نوجوان کی تحریر ”جیو اُردو” پر آئی ہے میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ عبدالرب نے ”جیو اُردو” میں مہاجر عوام کی ہمدردیاں یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے’ یہ تو اُن کی بات کا جواب ہے ورنہ کون کسی اور وہ بھی ایک صحافتی ادارے’ کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ عبدالرب جس کی تحریر اُس کی عمر سے بڑی لگتی ہے ‘ چلو کوئی بات نہیں کسی دل جلے نے اپنا نام چھپا کر اس بے چارے کا نام دے دیا ہو گا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس تحریر میں صوبہ سرائیکستان کی مقدس تحریک کو جو کہ خطے میں بسنے والے تمام لوگوں کے انسانی حقوق کی تحریک ہے اور صوبہ بننے پر مفادات سمیٹنے کیلئے رانا عبدالرب اور ان کے پیچھے چھپے ہوئے لوگ پیش پیش ہوں گے’ آج وہ بے شرمی سے اس کے تانے بانے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مکتی باہنی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں کسی خاص کمیونٹی پر الزام بھی نہیں لگانا چاہتا’ تمام مہاجروں کو غدار بھی نہیں سمجھتا لیکن الطاف حسین جیسے جن لوگوں نے ”پاکستان مردہ باد” کا نعرہ لگایا ہے ‘ رانا عبدالرب کا تعلق بھی اسی مکتبہ فکر سے لگتا ہے’ اب لوگ خود فیصلہ کریں گے کہ ملک دشمن کون ہیں اور کن کے تانے بانے جا کر انڈیا سے ملتے ہیں۔

اپنے مضمون کے دوسرے اور تیسرے پیرا گراف میں انہوں نے محرومی کا ذمہ دار جاگیرداروں کو ٹھہرایا ہے تو گزارش یہ ہے کہ ہم نے کب کہا کہ سرائیکی خطے کے جاگیردار وسیب کے غریب عوام کے وفا دار رہے ہیں۔ ہم نے تو ہمیشہ ایسے ہی جاگیرداروں کو غدار ابن غدار، ابن غدار لکھالیکن میں رانا عبدالرب سے پوچھتا ہوں کہ جاگیرداروں کے بعد سرائیکی وسیب سے مہاجر و آباد کار بھی منتخب ہوئے اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں’ وزارتیں بھی حاصل کی ہیں’ تو ان لوگوں نے کون سی دودھ کی نہریں بہا دی ہیں؟ کیا ان کا دامن لوٹ مار سے پاک ہے؟ ہماری پختہ رائے ہے کہ جس طرح جاگیردار اس دھرتی کے غدار ہیں اسی طرح یہ بھی اس دھرتی کے غریب عوام کے وفادار نہیں اور ان کے دل بھی اقتدار کے مراکز کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

Seraiki

Seraiki

چوتھے پیرا گراف میں رانا عبدالرب (جن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور ان کی نہ ہی کوئی تحریر میری نظر سے پہلے گزری ہے) وہ بہاولپور صوبے کی بات کو بھی لے آئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی طرف سے سرائیکی تحریک کو نقصان پہنچانے کا ذکر بھی کیا اور اس جگہ وہ ڈاکٹر انوار کی خوشامد میں بھی فقرے لکھے حالانکہ اس موضوع میں ڈاکٹر انوار آتے ہی نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رانا عبدالرب کی تحریر لکھنے والا کوئی منتشر المزاج شخص ہے جو اپنی ناراضگیاں بھی نکالنا چاہتا ہے اور بعض وسیب دشمنوں کی اس بنا پر خوشامد کرنا چاہتا ہے کہ وہ منافقت سے کام لیتے ہوئے وسیب دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

آخری پیرا گراف میں انہوں نے لیہ کے ڈاکٹر مزمل کو میرا دوسرا چہرہ قرار دیا حالانکہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر مزمل کا جب وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام یہ خوشامد نامہ سامنے آیا کہ تھل کو ڈویژن بنا دیا جائے تو سرائیکی صوبے کی تحریک ختم ہو جائے گی’ تو ہم نے سب سے پہلے اس خوشامد نامے کی مذمت کی اور ہم نے موقف اختیار کیا کہ سرائیکی صوبے کی تحریک کروڑوں سرائیکی انسانوں کے حقوق کی تحریک ہے اور صوبہ سرائیکستان کسی نئے ضلعے یا نئے ڈویژن کے لئے نہیں بلکہ اس خطے کے کروڑوں انسانوں کی شناخت اور ان کے اختیار کی تحریک ہے۔

Movement

Movement

یہ تحریک کسی کے باپ کی تحریک نہیں کہ وہ اس کا محض چھوٹے سے مفاد کی خاطر سودا کر دے۔ جب بہت ٹائم گزرا تو ہم نے ان لوگوں سے پوچھا جو سرائیکی صوبے کے بدلے تھل ڈویژن بنانے کیلئے پیش پیش تھے ہم نے ان لوگوں سے بھی پوچھا جو سرائیکی صوبے کے بدلے ملتان کو سب سول سیکرٹریٹ بنانے کیلئے بے تاب تھے اور اس سلسلے میں موجودہ گورنر ملک رفیق رجوانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی’ ہم نے اس وقت کہا تھا کہ یہ سب ڈھونگ اور ڈرامہ ہے’ ہم نے سرائیکی قوم اور سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے والے محمد علی درانی کے بہاولپور صوبہ ایجنڈا کو بھی مسترد کیا تھا۔ ہم نے ملتان میں سرائیکی تحریک کے پیٹ میں چھرا گھونپنے والے رانا تصویر اور مہاجر صوبہ بنانے والے اشرف قریشی جیسے ہر وسیب دشمن کو موقع پر جواب دیا اور وسیب کے لوگوں نے بھی اپنے عظیم اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرکے ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا۔

اب رانا عبدالرب نامی شخص کہہ رہا ہے کہ میں نے ظہور دھریجہ کو فون پر اطلاع دی خطوط کی فوٹو کاپیاں بھیجیں اور اس کی رسیدیں بھی میرے پاس محفوظ ہیں’ ارے بھائی! کیوں جھوٹ بھولتے ہو’ کب تم نے مجھے فون کیا’ کب مجھے خطوط لکھے’ اور کہاں ہیں وہ رسیدیں؟ کہ میں نے آپ کے خطوط وصول کئے اور آپ کو جواب تک نہ دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں ایک غریب آدمی ہوں ‘ روزی روزگار کے مسائل بھی ہیں جو چھوٹا موٹا ہو سکتا ہے تحریک کا کام بھی کرتا ہوں لیکن اتنا بھی بد اخلاق نہیں ہوں کہ اتنے میرے پاس خطوط آئیں اور میں جواب بھی نہ دوں’ اور اتنا بھی میرا حافظہ کمزور نہیں ہے کہ سرائیکی مسئلے پر فون پر کسی سے بات ہو اور مجھے یاد بھی نہ رہے۔

Zahoor Dhareeja

Zahoor Dhareeja

تحریر: ظہور دھریجہ