تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کئی ماہ سے مسئلہ ختم نبوت پر اسلامیان پاکستان کا احتجاج دھرنے جاری ہیںایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف قادیانیوں اور ان کے سرپرستوں و حواریوں کے گھیرے میں ہیں وہ انہیں جدھر ہانکتے پھرتے ہیںادھر ہی یہ چل پڑتے ہیں پاکستانی بجا طور پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت گاہے بگاہے آئین کی اسلامی دفعات کو چھیڑنے کا عمل مستقل طور پر ختم کردے اور قادیانی نواز ارتدادی گروہوں کو اپنی ان کمین گاہوں سے نکال باہر کریں جہاں وہ گھس بیٹھئے بنے مذموم حرکات کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس مذموم تبدیل شدہ قرارداد کے قومی اسمبلی کے پیش کرنے کے محرک وفاقی وزیر قانون زاہد حامد ہی تھے اس لیے ختم نبوت کے مسئلہ پرکتر بیونت کرکے اسے قادیانیوں کے حق میں تیار کر ڈالنا بھی انہی کی پہلی اور آخری ذمہ داری تھی اس لیے انہیں فوراً وزارت سے خارج کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھاسو جوتے اور سو پیاز کھانے کی طرح ایک ماہ تک خود کردہ را علاج نیست کے مصداق انٹر نیٹ ،فیس بک ٹوئیٹر اور الیکٹرانک میڈیا پر مغلظات اور کفر کے فتوے سن سن کر ن لیگیوں کے جب کان پک گئے تو اسلام آباد پنڈی کے سنگم والا دھرنا ختم کروانے کی ضمن میں زاہد حامد کو فارغ کیا گیا اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کی طرح بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا ایک ماہ کے دوران حکمرانوں کی جس طرح درگت بنی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
بالآخر جب وزراء کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے تو حکمران جو کہ خواب غفلت میں مدہوش تھے وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے تو فوراً زاہد حامد کو وزارت سے آئوٹ کرکے اپنی جان خلاصی کروائی۔اب رہی رانا ثناء اللہ کی بات تو وہ بھی بیعنہہ ایسا ہی کیس ہے کہ انہوں نے تحفظ ختم نبوت کی تحریک کے دوران ہی غالباً نشہ کی حالت میں “کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی”انتہائی نا معقول بیان جاری کرکے ختم الرمرسلینۖ کی تحفظ ختم نبوت کی چلتی تحریک پر تیل پھینک کر اسے مزید بھڑکا ڈالاجو کہ ان کی احمقانہ سوچ و فکر کا بین ثبوت تھا ان کا بیان میں یہ کہنا کہ مرزائیوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں وہ ہماری طرح نماز پڑھتے روزہ رکھتے حج کرتے ،زکوة دیتے اور مساجد بناتے ہیںانتہائی کافرانہ اور ارتدادی خیالات پر مبنی تھا۔خود مرزا محمود ابن مرزا قادیانی نے انوار خلافت صفحہ 90پر لکھا” ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور نہ ان کے پیچے نماز پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں”پھر مرزا غلام احمد کی تقریر 30جولائی1931کے الفضل میں چھپی جس میں کہا گیا کہ”یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات ،رسول کریمۖ،قرآن ، نماز ،روزہ ،حج ، زکوة غرض آپ نے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے اختلا ف ہے “پھر قادیانیوں کے مسلمانوں سے جدا مذہب پرطلباء کو تقریر کرتے ہوئے کہا جو اخبار الفضل21اگست 1917کو چھپی جس میں بیا ن ہوا کہ “ورنہ حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد)نے فرمایا کہ ان کا (یعنی مسلمانو ں کا )اسلام اور ہے اور ہمارا اور ،ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور،ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور اور اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے”مرزا ثنا ء اللہ کے انتہائی غلط بیان کو مرزائیوں کے خود بیانات و تقاریر کی نظر سے دیکھیںجس کی وجہ سے ن لیگی قیادت کے لیے سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے پورا فیصل آباد ہی نہیں پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔
جھوٹے مدعی نبوت اور اس کے پیروکاروںکو مسلمان ثابت کرنے والا کیا مسلمان رہ سکتا ہے؟ اس حساس ایمانی مسئلے پر کسی غفلت کی گنجائش نہیں ایسے تمام اشخاص شرعی آئینی سزا کے مستوجب ہیں اور مرتدین و زندیقین کی سزا نافذ کیے بغیر کوئی چارا نہ ہے۔ لاہور کا دھرنا بھی اسی لیے ختم کیا گیا کہ اب رانا ثنا ء اللہ کے کفریہ بیان کی مزید تحقیقات ہوسکے ان کا استعفیٰ حکومت نے نہ لیا تو یہی رانا ثنا ء اللہ ان کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہو ں گے اور ن لیگ کو جو نقصان پہنچے گا اس کی شاید تلافی کبھی ممکن نہ ہوسکے پہلے ہی زاہد حامد کے استعفیٰ کے مسئلہ کو لٹکائے رکھنے سے ن لیگ پر جس طرح قادیانیت نوازی کا لیبل چسپاں ہو گیا ہے وہ اترتے اترتے ہی اترے گا وگرنہ جو بات عام آدمی کے دل میں جا گزیںہو جائے اس کا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے رانا ثناء اللہ لاکھ تردیدیں جاری کرتے رہیں ختم نبوت کے نعرے لگائیں اور اپنے عقیدے کی وضاحت کرتے پھریں علماء فقہا کا کہنا ہے کہ کلمات کفر جب ادا ہو جائیں اور وہ بھی قادیانی مرتدین و زندیقین کے حق میں ان کی نہ توکسی بھی صورت معافی ہوسکتی ہے اور نہ ہی ایسے گناہ کبیرا کی تلافی۔حضرت محمد ۖ کی ختم نبوت کے منکرین کی امداد اور انہیں مسلمان قرار دینا توہین رسالت کے زمرہ میں آتا ہے جس کی ایسا ملزم لاکھ معافیاں مانگتا پھرے اس پر ارتدادی کیفیت ہی نافذ ہو گی اور وہ اول آخرمرتد ہی رہے گا۔
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباددیں گے اس مسئلہ سے رانا ثنا ء اللہ بودی دلیلوں اورحیلوں بہانوں سے نکلنے کی جتنی کوشش کریں گے اتنے ہی مزید پھنستے چلے جائیں گے ان کے ساتھ ن لیگی بھی ،مزید قعر مذلت میں گرتے چلے جائیں گے آخر ایسے دینی مسئلہ پر انہیں کس نے بولنے کی اجازت دی تھی دراصل ن لیگی الیکٹرانک میڈیا پر آنے کی خواہشات اور ذاتی تشہیر کے لیے ایسی ایسی باتیںکر جاتے ہیں کہ ان کا سر پائوں بھی نہیں ملتا۔حکومت کا مقرر کردہ ترجمان یا پھر وزارت اطلاعت ہی حکومتی پالیسیوں کی وضاحت کیا کرتا ہے مگر یہاں تو ان کا باوہ آدم ہی نرالا ہے۔اغلب امکان یہی ہے کہ نااہل نواز شریف کو پارٹی صدر کے طور پر برقرار رکھنے والی قرارداد کے شور و غوغا کے اندر ہی بڑے سامراج کو خوش کرنے کے لیے ختم نبوت والی شقوں میں ترامیم کر ڈالی گئیں کہ اس طرح کسی کو سمجھ ہی نہیں آئے گا اور ہوا بھی ایسے 99.5ممبران قومی اسمبلی نے خاموش بت بنے صرف ہاتھ کھڑے کرکے قرارداد کی منظوری کر ڈالی ۔کیا یہ سبھی بھی معافی کے قابل ہیں ؟کیا انہیں دوبارہ تجدید ایمان نہیں کرنا چاہیے؟