تحریر: شہزاد حسین بھٹی کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور کراچی کا امن اوراستحکام پورے ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ہے۔ مگر بدقسمتی سے غیر ملکی طاقتوں کے اشارورں پر کراچی کا امن برباد کرنے کی کوششیں مسلسل کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کراچی میں بوری بند لاشیں ملتی تھیں تو کھبی بھتے کی پرچیاں، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر تھیں۔ اسکے علاوہ سماج دشمن عناصر اور کالعدم تنظیموں کی دہشت گردانہ کاروائیاں اور دھماکے آئے روز کراچی کا امن سبوتاژ کر رہے تھے۔
جب امن وامان کے حالات سندھ حکومت کے قابو سے باہر ہو گئے توکراچی کی عوام خصوصاتاجربرادری نے پاکستان آرمی کو بلانے کی آوازیں لگانا شروع کر دیںجس پر وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی مشاورت سے 5 ستمبر 2013 ء کوکراچی میں رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے پولیس کے اختیارات دے دیے۔ رینجرز نے گزشتہ ٢٣ ماہ میں قیام امن کے حوالے سے جو کارکردگی دیکھائی وہ نہ صر ف لائق تحسین ہے بلکہ رینجرز پر ملک کے ساتھ حب الوطنی اور جانثاری کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
چند دن پہلے سندھ میںرینجرز کے اختیارات ختم ہونے کے بعد وزارت داخلہ کی جانب سے شہر میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر اختیارات میں توسیع کی باتیں کی جا رہی تھیں اور اسی دوران رینجرز نے اپنی گزشتہ 23 ماہ کی کارکردگی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔رینجرز حکام کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 23 ماہ میں رینجرز نے 7 ہزار 795 آپریشن کیے جن میں 10 ہزار 353 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ 5 ستمبر 2013 ء سے رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا تھا اور انہوں نے اس دوران گرفتار افراد میں سے 4 ہزار 950 افراد کو سندھ پولیس کے حوالے کیا جبکہ گرفتار افراد سے 7 ہزار 312 ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔ رینجرز حکام نے بتایا ہے کہ مقابلوں کے دوران 364 افراد مارے گئے جس میں233 دہشت گرد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ رینجرز نے مختلف کاروائیوں کے دوران 826 بڑے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ رینجرز کا کہنا ہے کہ اس 23 ماہ کے عرصہ میں گرفتار ہونے والوں میں 334 ٹارگٹ کلرز ، 296 بھتہ خور اور اغوائ برائے تاوان کے 82 ملزمان پکڑے گئے ہیں جبکہ رینجرز نے 49 مغویوں کو بازیاب بھی کروایا ہے۔
Karachi Targeted Killing
شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رینجرز حکام نے کارکردگی کا گراف بھی پیش کیا گیاہے جس کے تحت ستمبر 2013 ء میں ٹارگٹ کلنگ کا گراف 50 فیصد تھا۔ اس کے بعد اکتوبر میں 46 فیصد ، نومبر میں 55 فیصد اور دسمبر 2013ء میں یہ گراف 73 فیصد تک تھا۔ اس کے بعد جنوری 2014 ء میں 62 فیصد ، فروری میں 66 فیصد ، مارچ میں 57 فیصد ، اپریل میں 43 فیصد ، مئی میں 50 فیصد ، جون 43 فیصد ، جولائی 42 فیصد اور اگست 40 فیصد رہا۔ اس کے علاوہ نومبر 2014 ء میں 29 فیصد اور دسمبر میں یہ گراف 23 فیصد رہا ہے۔ رینجرز کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2015 ء میں 19 فیصد ، فروری میں 17 فیصد ، مارچ میں 13 فیصد ، اپریل میں 18 فیصد ، مئی میں 17 فیصد اور جون میں یہ گراف 9 فیصد تک رہا ہے۔ رینجرز حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 ء میں بھتہ خوری کے 1524 واقعات ہوئے جبکہ یہ تعداد سال 2014 ء میں 899 تک آ گئی۔ اس کے علاوہ سال 2015 ء میں 6 ماہ کے دوران 254 واقعات سامنے آئے ہیں۔ رینجرز نے مزید بتایا ہے کہ سال 2013 ء میں 28 بینک ڈکیتیاں ہوئی ہیں جبکہ سال 2015 ء کے 6 ماہ میں 7 بینک ڈکیتیاں ہوئی ہیں۔
رینجرز کو دیے گئے اختیارات کی مدت ختم ہونے پر ہر طرف چہ مگوئیاں شروع ہو گیئں کہ اب رینجرز کو حاصل اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے صاف صاف کہہ دیا کہ کراچی کو اب رینجرز کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ صرف ان کے کارکنوں کو پکڑکر١٢٠ دن کے لیے حراست میں لے کر ان پر تشدد کرتی ہے رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے ریفرنڈم کروایا جائے۔اسی طرح پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت بھی اس بات پرخوش نہیں تھی کہ رینجرز کے اخیتارات میں اضافہ ہوکیونکہ رینجرز نے جن بھتہ خورورں کو پکڑ اور ا نہوں نے جو انکشافات کیے اس کے تانے بانے بلاول ہاوس سے جا ملتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اور درجن بھر دیگر عہدے دارچھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے ڈر سے ملک چھوڑ کر دبئی جا بیٹھے ہیںجس پر اپوزیشن کی جماعتوں اور تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوںلیا ۔ اور یوں پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کے نتیجے میں بلاول بھٹو کی انٹری ہوئی جو اپنے محدود اختیارات کے ساتھ پارٹی وسندھ حکومت کی عنان سنبھالے ہوئے ہیں۔
رینجرز کے خصوصی اختیارات کے ٹائم فریم کی مدت ختم ہونے پر اس میں ٢٤ گھنٹے کی توسیع کی گئی۔وفاقی وزیر چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت نے ریکو زیشن نہیں کی تو 24 گھنٹوں میں رینجرز کو واپس بلا لیا جائے گا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رینجرز نے شہر میں امن بحال کیا ہے، اس لیے کراچی کی سڑکوں کوبے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے رابطہ کیا، جس کے بعد وہ بلاول ہاؤس پہنچے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے مشاورت کی۔اسی دوران سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی دبئی سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ کو رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی اجازت دے دی گئی۔اس ضمن میں بدھ کی شب محکمہ داخلہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ میں رینجرز کو مزید ایک ماہ کے لیے مشتبہ افراد کو 120 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔اس سے پہلے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت سندھ حکومت رینجرز کواختیارات دینے سے قبل صوبائی اسمبلی سے منظوری حاصل کرنے کی پابند ہے، اور حکومت سندھ ازخود رینجرز کی مدت میں توسیع نہیں کر سکتی۔
Sindh Government
صوبائی حکومت معاملہ کو اسمبلی میں لے جانے کی خواہش مند ہے رینجرز کو انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 1997 کے تحت کسی بھی مشتبہ شخص کو 90 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے لیے دیے گئے اختیارات اس سے پہلے ٤ ماہ کے لیے ملتے رہے ہیں لیکن اس بار ان میں صرف 30 روز کے لیے اضافہ کیا گیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سخت موقف میں نرمی کا اظہار تو کیا ہے، لیکن اب بھی کچھ پتے اس کے ہاتھوں میں ہیں۔واضح رہے کہ 11 جولائی کو رینجرز کے پاس موجود پولیس اختیارت کی مدت بھی ختم ہو رہی تھی اور اگر اس میں توسیع نہ کی جاتی تو رینجرز کے پاس گھروں پر چھاپے کے اختیارات نہیں رہتے۔ اسی طرح سندھ میں رینجرز کی موجودگی کی مدت بھی 19 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے چوہدری نثار نے امید ظاہر کی تھی کہ سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کر دے گی اور اس کے تحفظات دور کر دیے جائیں گے، یہ اختیارات صوبائی خود مختاری میں مداخلت نہیں۔دوسری جانب وفاقی حکومت کے علاوہ تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں نے رینجرز کے اختیارات کی حمایت کی ہے ۔کیونکہ رینجرز کی بدولت کراچی کا امن بحال ہوا ہے اور اس کی روشنیاں واپس لوٹی ہیں۔
جرائم پیشہ عناصر جو بچ گئے ہیں وہ روپوش یا دوسرے علاقوںمیں نقل مکانی کر گئے ہیں اگر رینجرز چلے جاتے ہیں تو کچھ دنوں بعد یہ جرائم پیشہ عناصر پھر اکھٹے ہو کر دوبارہ اپنی کاروائیں شروع کر سکتے ہیںلہذا ان حالات میں رینجر کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنا ہو گا تاکہ ملک کے معاشی حب میں حقیقی معنوں میں امن بحال ہو سکے اور اہلیان کراچی بلا خوف وخطر اپنے کاروبار زندگی کو جاری رکھ سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ جہا ں ہم رینجرز کی کامیابیوں کو سراہا رہے ہیںوہیں ہمیں اس راہ پرخطر پر شہید ہونے والے رینجرز اہلکاروں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے کراچی میں امن کی خاطراپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ رینجرز تمہیں سلام۔