کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ سب کچھ اچھا دکھایا جا رہا ہے مگر سب کچھ اچھا نہیں ہے،سی پیک کا ناول عمدہ تحریر کیا گیا ہے مگر حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں،سی پیک کی تکمیل تک مزید کتنا قرضہ لیا جائے گا اور اس قرضے اور اس پر واجب الادا سود لوٹانے کے لئے کیا پالیسی ہے؟کیا ایسا کوئی پیمانہ یاپالیسی نہیں ہے کہ جس کے تحت ملکی ادارے اور حکومت پابند ہوجائے کہ مزید قرض نہیں لیا جا سکتا ہے۔
ملکی ادارے تباہ ہوچکے ہیں جب کہ حکومت اور اپوزیشن پانامہ کیسز پر سیاست کر رہے ہیں،بعض سفید دامن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ پانامہ سے پاک ہیں مگر باہا ماس میں ان کا نام بھی ہے،جمعیت علماء پاکستان کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں ہے، پانامہ کے دونوں فریقین ہمارے لئے ایک سکے کے دو رخ ہیں، کیوںکہ دونوں فریقین کے کئی لوگ پانامہ اور باہاماس میں ملوث ہیں،استثنیٰ والی بات نے منفی عکس بندی کی ہے،نا آشالوگ بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ شائد کوئی ایسی بات ہوگی جس کی وجہ سے پانامہ کا شور ہور ہا ہے،ہمیں وہ لوگ چاہیے ہیں جو خوشحال پاکستان کے لئے بہتر معاشی پالیسیاں دے سکیں،سی پیک ایک قدرتی موقع ہے، سی پیک کے لئے چین آگے نہ بڑھتا تو موجودہ حکومت کے لئے حالات بد سے بدترین ہوجاتے،دھرنوں نے ملک کو کسی بہتری کی امید تو نہیں دی مگر عوام کے لئے ان گنت مسائل کھڑے کردئے،تاجروں کے ایک وفد اور جے یو پی میں شامل ہونے والے نئے خادمین سے ملاقات کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ سبسڈی تو اس وقت کہلاتی جب دنیا سے مہنگا پیٹرول خرید کر عوام کو سستا بیچا جاتا، ایک سال سے فیول کی قیمت گرتی جا رہی ہے۔
اس کے باوجود فیول اتنا سستا نہیں کیا گیا جتنا ہونا چاہیے تھا، اب وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پیٹرول کی وجہ سے 70ارب کا نقصان ہوگیا،یہ بات عدلیہ تک میں ثابت ہوگئی کہ جتنی قیمت نہیں ہے اس سے زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے،موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب زیادہ قرضے لئے، ایسی صورتحال میں کون یقین کرسکتا ہے کہ ملک مستحکم ہونے جا رہا ہے،ٹیکسٹائل پالیسی پر نظر ثانی کی جائے معیشت تباہ ہوگئی ہے،ٹیکسٹائل کی انڈسٹری میں پاکستان پہلے نمبر پر تھا اور اب دسویں نمبر پربھی نہیں ہے،تاجر برادری کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں مواقع فراہم کئے جائیں،لوگ کام کرنا چاہتے ہیں، مگر حکومتی پالیسیاں ساتھ نہیں دے رہی ہیں،شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ رینجرز اختیارات میں توسیع نہ کرنا کراچی وحیدرآباد کی عوام کو بلیک میل کرنے کے مترادف ہے،ہر عوامی مسئلے کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کرنا شرمناک عمل ہے،مجرموں کو محفوظ راہداری فراہم کرنا ان کا سہولت کار بننے جیسا ہے،مزید قتل و غارت گری ااور بھتہ خوری عوام کے لئے ناقابل برداشت ہے، کراچی میں 60مقامات غیر محفوظ قرار دے دئے گئے ہیں، ایسے میں رینجرز کی کاروائیاں عوام کے لئے حوصلہ مند تھیں، اس سال کے تین ابتدائی ہفتوں میں تیس سے زائد افراد قتل کردئے گئے،سندھ حکومت سندھ کے عوام کا تحفظ کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے،جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما جے یو پی میں شامل ہونے والے نئے خادمین سے ملاقات کر رہے تھے۔