تاوان

India Riots

India Riots

تحریر : اشفاق احمد
1947 میں پاکستان بنا. ایسے ہی نہیں بن گیا. بلکہ تاوان دینا پڑا.لاکھوں قیمتی جانوں کا تاوان. کیا امیر کیا غریب، کیا چھوٹے کیا بڑے، زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے تاوان بھرا اور آخرکار زمیں کا وہ ٹکڑا حاصل کر ہی لیا جسے “پاکستان” کہا جاتا ہے. پچھلے ساٹھ سالوں سے تاوان بھرا جاتا رہا اس زمین کے ٹکڑے کو قائم دائم رکھنے کے لیے. رنگ و خون، نسلی صوبائی فرقوں سے آزاد رہتے ہوئے سب “پاکستانی” کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی مقام پہ یہ تاوان ادا کرتے رہے. مگر اب پچھلے آٹھ سالوں سے یہ تاوان کون ادا کر رہا ہے. کیا اس ملک کے امیر لوگ؟؟؟؟؟؟ “نہیں” کیا اس ملک کے غریب لوگ؟؟؟؟؟؟ “نہیں” کیا اس ملک کے کسی عوامی شعبے سے تعلق رکھنے والے انجینئیر ڈاکٹر استاد ؟؟؟؟؟؟ “نہیں” آخر کون ہے جو وفا نبھ رہا ہے. خود مٹ رہا ہے مگر وطن بچا رہا ہے. میں آپ کو بتاتا ہوں وہ کون ہے. وہ “پاک فوج کا جوان” ہے. ہاں اب اس وطن کو بچانے کے لئے یہ تاوان صرف فوج ادا کر رہی ہے. اپنے لہو کا خراج پیش کر رہی ہے

چاہے یہ لہو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے یا اس کے معصوم بچوں کی رگوں میں. خون تو پاک فوج کا ہے نا. زمین سیراب ہو رہی ہے. زمین گل رنگ ہو رہی ہے. مگر یہ تاوان پاک فوج ادا کر رہی ہے. ان نونہالوں کو قربان کر رہی ہے جنہوں نے ابھی زندگی کے رنگ بھی صحیح طرح نہیں دیکھے. اگر یہ ایسے ہی ہوتا رہا تو ایک وقت آئے گا جب ہمارے پاس وفا نبھانے والوں کا لہو نہیں رہے گا. ہماری بیحسی ہمیں تہی دامن کر ڈالے گی. محبتوں کے پاسبان، وفا نبھانے والے سب قربان ہو جائیں گے. پھر اس وطن میں کون رہے گا

بے حس لوگ رہ جائیں گے. سوئے ہوئے لوگ رہ جائیں گے.اور ان بے حس لوگوں کی ہی نسلیں رہ جائیں گی. جو آج وطن کے لیے کچھ نہیں کر رہے وہ کل کو کیا دے سکیں گے اس وطن کو. بس اپنے جیسی ایک کٹھور دل نسل. کل کو اس زمین کی بہار گل رنگ کرنے کے لیے جب لہو کا خراج مانگا جائے گا، تو کون دے گا؟ زمین تڑپے گی، سسکے گی اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اپنے اوپر بسنے والوں کو غلامی کا طوق پہنا ڈالے گی. آزادی کیا ہوتی ہے یہ بس دو نسلیں پہلے کے لوگ جانتے تھے. ہم، ہم تو سمجھ ہی نہ سکے کہ آزادی کیا ہوتی ہے. لیکن اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والی نسلیں ضرور سمجھ جائیں گی آزادی کی قدر و قیمت. التجا ہے

Pakistan

Pakistan

اپنے وطن میں بسنے والے ہر دل سے التجا ہے. خدارا بیحسی کا یہ خول چٹخ ڈالو. خدارا سنبھل جاو. خدارا ان قیمتی وفا پرست لوگوں کی جانیں بچا لو. یہ ہمارا بھی وطن ہے. قدر کرو اس وطن کی. قدر کرو آزادی کی. قدر کرو اس پر مرمٹنے والوں کی. بچا لو ان وفا پرستوں کو. بچا لو ان کے معصوم بچوں کو، جو قیمتی سرمایہ ہیں ہمارے وطن کا. آو آج سب فرق مٹا ڈالو. امیری غریبی کے سب جھگڑے ختم کر ڈالو. نسلی صوبائی سب دیواریں توڑ ڈالو. ڈاکٹر انجینئیر استاد بینکر سب پاک فوج کے ساتھ مل جاو. آو تاوان لینے والوں کو بتا ڈالو کہ “ہم ایک ہیں”. آشیانے کو آگ لگے تو گھر کا کمزور ترین فرد بھی کوشش کرتا ہے اپنے گھر کو بچانے کی. کوئی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے آشیانے کو شعلوں میں لپٹا نہیں دیکھا

کوئی اپنا گھر جلتا نہیں دیکھا. آو سب ایک ہو جاو. آو اپنے اپنے حصے کا تاوان ادا کرو. اپنی آنے والی نسلوں کو غلامی سے بچا لو. آو خراج بھر ڈالو ابھی. آو ایک ہو جاو. یاد رکھنا کہ ہزاروں سال نرگس کو اپنی بے نوری پہ رونا پڑتا ہے. پھر جا کر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے

Beautiful Place

Beautiful Place

اس سرزمین کو بنے سو سال بھی نہیں ہوئے ابھی. ہزاروں سال کا تاوان نہیں بھا جا سکتا. بچا لو اپنی آنے والی نسلوں کو. یہ زمین ہمارا تحفظ ہے. اس کے رکھوالے ہمارا سرمایہ ہیں. یہ وطن ہم سب کا ہے. آو ایک ہو جاو. ایک پہچان بن جاو. آو “پاکستانی” بن جاو.
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائیندہ باد

تحریر : اشفاق احمد