راؤ انوار کی رہائیش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ جیل حکام نے راؤانوار کا میڈیکل سرٹیفکٹ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جمح کروا دیا ۔حکومت سندھ کے وزیر داخلہ کے حکم پر راؤانوار کو جیل اس لئے نہی بھیجا گیا کہ راؤانوار کی جان کو خطرہ ہے۔ راؤانوار ملیر کینٹ میں واقع اپنی رہائیش گاہ میں رہیں گے کیونکہ ان کی طبیت خراب ہے۔ اور گھر کی سہولت سے لطف اندوز ہونگے۔ کیا بات ہے راؤانوار کی ۔ 444 مبینہ قتال کا الزام ہے اور ہمارے نظام میں ہمت نہی ہے کہ اسے ہتھکڑی لگا سکے۔ یہ شرمناک نظام ہے کیا ہماری جیلوں میں موجود کسی ایک بھی ایسے عام مجرم کو یہ سہولت مئیسر ہے کہ اس پر کسی ایک بھی قتل کا الزام ہو اور اسے یہ سہولت میئسر ہو۔ خدا کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہی ہے یہ بات تو ہم جانتے ہیں مگر خدا کے کاموں اور انصاف میں تاخیر میں بھی اسکا کوئ نہ کوئ منصوبہ ہوتا ہے جسے ہم انسان سمجھنے سے اس وقت تک قاصر ہیں جب تک خدا کی مرضی نہ ہو۔ راؤانوار کی شخصیت پرسرار سی رہی ہے۔ کسی بھی قانون اور آئین سے بالاتر یہ شخص کون ہے اور اس کے پیچھے کون ہے یہ کوئ نہی جانتا۔ یہ نہ افسران بالا کو جوابدہ ہے اور نہ ہی افسران اعلیٰ کو۔ ایک میٹرک پاس پولیس والا ایس ایس پی کے عہدے تک کیسے پہنچا کسی کو پتہ نہی ہے۔
مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے وقت راؤ انوار اے ایس آئ تھا اور وہ بھی اس ٹیم کا حصہ تھا جس نے مرتضٰی بھٹو اور اس کے ساتھیوں کو مبینہ طور پر ہلاک کیا تھا۔ مگر واحد پولیس والا تھا جو اس کیس میں نامزد نہی تھا۔ یہ بات تو دنیا جانتی ہے کہ اس کے پاس لائسنس ٹو کل تھا مگر اس کو یہ لائسنس کس نے دیا یہ شائد کبھی نہ پتا چل سکے۔ ایک اور حیرت کی بات ہے کہ کراچی کے بہت سے معروف پولیس افسران جو کہ ایم کیو ایم کے مخالف تھے قتل کر دیے گئے مگر واحد پولیس افسر راؤانوار زندہ ہے ۔ایم کیو ایم پرالزامات لگنے کے باوجود کسی ایک بھی پولیس والے کا قتل ثابت نہی ہوا تو پھر ان افسران کو کس نے قتل کیا۔ آج ایم کیو ایم ایک کمزور جماعت ہے تو آج ہی تفتیش شروع کریں اور ان پولیس افسران کے قاتلوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ راؤانوار نے ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن گرفتار کئے بہت سے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے جیسے کے فاروق دادا کو 1996 میں مبینہ پولیس مقبلے میں مارا گیا۔ کسی ادارے نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا نوٹس نہی لیا۔
اس پولیس والے کی طبیت میں سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 2008 میں راؤانوار کی قیادت میں پولیس موبائلوں اکا ایک قافلہ مواچھ گوٹھ سے گزر رہا تھا کہ دو نوجوان لڑکوں نے جو ایک سفید رنگ کی ٹیوٹا کرولا میں سوار تھے پولیس کے اس قافلے کو اوورٹیک کیا اس وقت کے ایس پی راؤانوار نے دو موبائلوں کو اس کار کا پیچھا کرنے کو کہا وہ نوجوان گھبرا کر بھاگے پولیس ان کا پیچھا کرتے ہوئے بلدیہ ٹاؤن میں گھس گئ اور پھر اس کار پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی ایک 19 سالا نوجوان موقع پر ہلاک ہو گیا اور دوسرا بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔کسی نے راؤانوار کو پوچھنے کی زحمت نہی کی۔ کیا ان ہلاکتوں کو زمہ دار اکیلا صرف راؤانوار ہے؟۔ 2010 سے لیکر نقیب اللہ محسود کے قتل تک تقریبا 448 لوگ ان نام نہاد پولیس مقابلوں میں قتل ہوئے مگر حیرت انگیز طور پر یہ مقابلے یک طرفہ ہی رہے کیونکہ ان میں سے کسی ایک مقابلے میں بھی پولیس کا ایک سپاہی بھی زخمی نہی ہوا۔
راؤ انوار کے ضلع ملیر میں رینجر کے آپریشن کے دوران مضید تیزی دیکھنے میں آئ جب 2013 میں یہ آپریشن شروع ہوا تو صرف ضلع ملیر میں 186 پولیس مقابلوں میں 160 لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ راؤانوار ایک پولیس آفیسر ہیں مگر ان کی آمدنی کسی وڈیرے اور چوہدری سے کم نہی ہے ان کے دو گھر دبئ میں ہیں ان کے بیوی بچے دبئ میں رہتے ہیں اور وہی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ دس سال سے وہ ضلع ملیر حکومت کر رہے ہیں اور کسی کی مجال نہی کہ کوئ اس کو ٹرانسفر کر سکے۔ کیا وجہ ہے کہ ان سے سینئر افسران بھی ڈرتے ہیں۔
حیرت انگیزطور پر کراچی پولیس کے ریکارڈ پر راؤانوار کے پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کو کوئ ریکارڈ ہی موجود نہی ہے۔ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے اور وہ دبئ جیسے مہنگے ملک میں اپنے بیوی بچونکوں کیسے پال رہا ہے کوئ پوچھنے والا نہی ہے۔ میں یورپ میں رہتا ہوں اور میرے بہت سے دوست دبئ میں رہتے ہیں مگر جب میں ان سے اشیائے خورد نوش اوران کے اخراجات کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم یورپ والے مہنگائ کے حوالے سے کہیں بہتر زندگی گزارتے ہیں۔
دبئ بہت مہنگا ہے تو پھر ایک ایس ایس پی کی کتنی تنخواہ ہوگی جو پاکستان میں کما کر دبئ میں اپنے خاندان کو پال رہا ہے۔ جے آئ ٹی کی رپورٹ میں راؤانوار کو قصوروار دکھایا گیا ہے اور اور رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کا کوئ ریکارڈ نہی ملا کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ نقیب کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث تھا۔ اس کے ساتھ دیگر تین لوگ جو قتل ہوئے ان کا بھی کوئ کرمنل ریکارڈ موجود نہی ہے۔ مجھے قطئ طور پر یہ امید نہی ہے کہ راؤانوار کو ہمارے موجودہ نظام میں کوئ سزا ہوگی۔ مگر ایک ایسا نظام دنیا میں موجود ہے جس سے کوئ بھی گناہ گار بچ نہی سکتا وہ خدا تعالی کا نظام ہے اور راؤانوار کا فیصلہ وہیں ہو گا۔