کراچی (جیوڈیسک) پوری کراچی پولیس مل کر بھی اپنے ہی بندے ملزم راؤ انوار کو نہ پکڑ سکی۔ ملزم کی موبائل لوکیشن بھی ٹریس ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو بھی ہو رہی ہے لیکن موصوف خود پولیس کے نیٹ ورک سے باہر ہیں۔ یہ ساری صورتحال راؤ انوار کی بہادری کی آئنہ دار ہے یا کراچی پولیس کی اہلیت کا پول کھو ل رہی ہے؟
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ پولیس کے پاس وٹس ایپ کال کی لوکیشن ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، پولیس نے لوکیشن ٹریس کرنے کیلئے پی ٹی اے کو خط لکھا ہے۔
آئی جی سندھ نے اسلام آباد میں رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کی۔ اے ڈی خواجہ نے انہیں بتایا کہ راؤ انوار کی تلاش کیلئے تمام اداروں سے رابطوں میں ہیں، لوکیشن ٹریس کرنے کیلئے پی ٹی اے کو خط لکھا ہے، پولیس کے پاس لوکیشن ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، پولیس اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہی، ایف آئی اے کو مقدمے کا علم ہوتا تو گرفتار کر لیتے۔
دوسری جانب، سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں نقیب قتل کیس پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ، وزیر داخلہ اور جرگہ ارکان نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ آئی جی نے کمیٹی کو بتایا کہ راؤ انوار کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا تاہم اس کے قریب تر پہنچ گئے ہیں، واقعے میں ملوث 8 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جو ریمانڈ پر ہیں، راؤ انوار سمیت 12 ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی پیش کر چکی ہے، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ ماورائے عدالت قتل ہے۔