16 دسمبر 2012ء کی رات ملک کی راجدھانی دہلی میںایک درد ناک واقعہ طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کا سامنے آیا۔ پولیس نے 6 وحشیانہ حرکت میں ملوث بدمعاشوں میں سے 4 کو چوبیس گھنٹوں میں گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتار شدگان میں بس کا ڈرائیور رام سنگھ، اس کا بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا شامل تھے۔ جلد ہی دیگر دو ملزمین کی شناخت بھی کر لی گئی۔ اس طرح کل چھ افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ مخصوص واقعہ کی فاسٹ ٹریک عدالت نے پیشی در پیشی اور سماعت در سماعت کے دوران معاملہ کے ہر پہلو کو سمجھنے اور غور و فکر کے بعد فیصلہ سنایا۔ فیصلہ وہی تھا جس کا مطالبہ متاثرہ کے والدین، سماجی تنظیمیں اور ملک کی عوام چاہتی تھی۔گرچہ یہ فیصلہ سنادیا گیا ہے لیکن ملزمین کو یہ حق حاصل ہے کہ اعلیٰ عدالت میں ایک بار پھر رحم کی فریاد کرتے ہوئے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دے سکیں۔ متاثرہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا وہ انتہائی بدبختانہ اور شرمناک تھا، ساتھ ہی جس ذہنی اور جسمانی تکلیف کا وہ شکار ہوئی وہ بھی حد درجہ افسوس ناک تھا۔
متاثرہ کا ہر ممکن طریقہ سے علاج کیا جاتا رہا لیکن جسم میں پھیلے زہر کی وجہ سے آخر کار وہ اس دنیا سے چل بسی۔لہذا معاملہ ایک جانب اجتماعی آبروریزی کا ٹھہرا توہیں دوسری جانب قتل اور اقدام قتل کا بھی بن گیا ۔اس پورے واقعہ میں جس طرح عوام نے متاثرہ سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے، عمر قید یا پھانسی کی سزا تجویز کرنے جیسے معاملات سامنے آئے وہ بھی قابل ستائش ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ساکیت کی فاسٹ ٹریک عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ نے اس معاملے کو نادر ترین قرار دیتے ہوئے چاروں قصوروار اکشے ٹھاکر (28)، ونے شرما(20)،پون گپتا(19)اور مکیش سنگھ (26) کو موت کی سزا سنائی۔ جسٹس کھنہ نے پہلے چاروں ملزمین کو اجتماعی عصمت دری، قتل، اقدام قتل، غیر فطری جنسی تعلقات قائم کرنے اور شواہد مٹانے کا قصور وار قرار دیا تھا۔ اور بعد میں سزا کی نوعیت پر وکیل اتغاثہ اور دفاعی وکیل کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ معاملے کی سماعت تقریباً 9 مہینے میں مکمل ہوئی۔
چونکہ فیصلہ پر ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں لہذا فیصلہ آنے پر تمام ہی حق پسند افراد نے خیر مقدم کیا۔چھ میں سے چار کے خلاف پھانسی کی سزا طے ہوئی، وحشیانہ واردات کے اصل ملزم رام سنگھ نے 11مارچ کو تہاڑ جیل میں خود کشی کر لی۔ اور ایک کمسن ملزم کو جوینائل بورڈ نے 31 اگست کو قصوروار ٹھہرا کر اصلاح گھر بھیج دیا۔ اور یہی وہ کمسن مجرم ہے جس پر لڑکی کے ساتھ سب سے زیادہ وحشیانہ سلوک کرنے کا الزام ہے۔ کیا ریپ کی سزا پھانسی مناسب ہے؟ جبکہ : اس پورے واقعہ، فیصلہ اور حتی الامکان عمل درآمد کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا دیگر ریپ کے قصورواروں کو اس سے کوئی سبق حاصل ہوگا؟ کیا یہ اور اس طرح کے فیصلوں سے ریپ کی تعداد میں کمی آئے گی؟ اور یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ آج ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں ہر آن ظلم و زیادتیوں کا بازار گرم ہے، یہاں لوگوں کے بنیادی حقوق کھلے عام سلب کیے جاتے ہیں، خاندانی نظام منتشر ہوا چاہتا ہے۔
Educational Institutions
برائیوں کو اب برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ فیشن بن چکی ہیں۔” زناں “اور” ریپ “میں فرق کیا جاتا ہے، عفت و عزت کی زندگی گزارنا ایک عیب سمجھا جاتا ہے ذمہ داریاں بوجھ سمجھی جانے لگی ہیں یہی وجہ ہے کہ خاندانی رشتہ اور وہ جذبات سرد پڑتے جا رہے ہیں جو ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً عریانیت اور فحاشی عام ہوچکی ہے، مذہبی گرو اور سنت معصیت سے بھری گندی دلدل میں لت پت ہیں، یہاں ولادت سے قبل ہی اولاد کو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے اور ہر قسم کا ڈر اور خوف دولت کی ریل پیل میں ختم ہوا چاہتا ہے۔ مقصد حیات عیش پرستی میں تبدیل ہو چکا ہے، مذہبی بنیادیں یا تو نہایت کمزور ہیں یا نا ہیں ہی نہیں یہاں الحاد عام ہوا چاہتا ہے، جدیدیت ایک خاص پس منظر پیش کی جانے لگی ہے اور آخرت کا تصور نا پختہ بنیاد وں پراستوار ہے۔یہ اور ان جیسے بے شمار مسائل ہیں جہاں عام انسان رہتا بستا اور زندگی گزارتا ہے اس کے باوجودیہاں برائی کو برائی کہتے ہوئے نہ صرف ڈر محسوس ہوتا ہے بلکہ نشاندہی کرنے والوں کو ڈرایا اور دھمکایا بھی جاتا ہے۔ ان حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ برائیوں کو روکنے کا ذریعہ کون بنے گا؟ حکومت، مذہبی گرو، سماجی خدمت گار، جدیدیت کے علمبردار، غیر حکومتی ادارے اور این جی اوز یا عام شہری؟ معاملہ یہ ہے کہ وہ تمام افراد اور حکومتی و غیر حکومتی ادارے جو برائیوں پر روک لگا سکتے ہیں، وہ خود برائی کو اس درجہ برائی تسلیم نہیں کرتے جو مطلوب ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ملزم جرم کر گزرتا ہے۔
لوگ واقف ہو جاتے ہیں،اُس لمحہ ہماری آنکھیں کھلتی ہیں لیکن قبل از وقت نہ ہمارے لیے وہ برائی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی درجہ میں جرم۔یہ وہ پس منظر ہے جس میں حکومت اور حکومتی ادارے چاہے وہ انتظامی امور سے تعلق رکھتے ہوں یا عدلیہ اور مقننہ میں سے ہوں، لیو اِن رلیشن پر پابندی کی بات نہیں کرتے۔ برخلاف اس کے لیو اِن رلیشن کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ ہومیو سیکسیو لٹی کو فرد واحد کا ذاتی معاملہ گردانتے ہوئے بتاتے ہوئے اجازت دی جاتی ہے، کو ایجوکیشن کو کسی بھی درجہ میں برائی کا ذریعہ نہیں مانتے، ڈریس کوڈ کو قید و بند کے متعارف سمجھتے ہیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بڑھتی فحاشی و عریانیت پر قد غن نہیں لگاتے، شراب اور دیگر نشیلی اشیاء جو حقیقتاً برائی کی جڑ ہیں، پر پابندی نہیں لگاتے۔ ایڈس جیسے مہلک مرض پر قابو پانے کے لیے کھلے عام تعلیمی اداروں و دیگر مقامات پرمفت وہ چیزیں فراہم کی جاتی ہیں جس سے معاشرہ نہ صرف کھوکلا ہوتا ہے بلکہ انتہائی ذلت و پستی کا شکار بھی ہوتا ہے۔
وہیں دوسری طرف ویسٹران ائیزیشن کو خوبی گردانتے ہوئے ہر سطح پر نقل کیا جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ واقف ہیں کہ جن کی نقل کی جارہی ہے اسی معاشرے میں بہت پہلے خاندانی نظام منتشر ہو چکا ہے، لاوارث اور حرام اولادوں کی تعداد ہر آن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ نتیجتاً وہاں بھی اور یہاں بھی کرائم ریٹ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ اسذلت و پستی کی زندگی گزارنے اور معاشرے میں بڑھتی برائیوں سے واقفیت کے باوجود اہل علم اور عوام کسی بھی سطح پر متذکرہ موضوع پر سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اگر کوئی ان موضوعات پر گفتگو کرتا ہے تو اس فکر اور اس سے وابستہ افراد کو دقیانوسی، غیر مہذب اور متشدد جیسے القاب سے معتارف کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ “زنا” اور” ریپ” کے واقعات رک جائیں یا ختم ہو جائیں؟ ظلم کے پرستا یہی طریقہ اختیار کرتے آئیں ہیں : حالات کے پس منظر میں جب کبھی آبروریزی کا واقعہ یا واقعات سامنے آتے ہیں تو کبھی معصوم تو کبھی شاطر دماغ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی “ریپ”کے مجرمین کے لیے اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے۔
Allha
لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچنے کی بھی زحمت کی کہ اسلامی قوانین میں زنا کی سزا سنگسار کیوں ہے؟ کیا اسلامی قانون کی رو سے جو شخص بھی زنا کا مرتکب ہوگا وہ سنگسار ہی ہوگا گرچہ وہ تمام برائیاں، ظلالتیں اور گمراہیاں جو زنا کا ذریعہ بنتی ہیں ایسے ہی جاری رہیں جس طرح آج ہمارے ملک میں عام ہیں؟کیا ان ذرائع پر پابندی لگائے بغیر ہی یہ قانون نافذ ہو جائے گا؟ یا ان ذرائع پر بھی وہی قانون اور حکومت و ریاست پابندی لگائے گی جو زنا کی سزا سنگسار بتاتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا کہ برائیاں تو اسی طرح عام ہوتیں جس طرح آج ہمارے درمیان چار سو موجود ہیں، ان پر کسی سمت سے کوئی پابندی بھی عائد نہ ہوتی، اس کے باوجود زنا کے مرتکب لوگوں کو سنگسار کیا جاتا،تو کیا اس پس منظر میں یہ سزا خود ایک عظیم ظلم نہ ٹھہر تی؟ کیا یہ گمان کہ وہ خدا جو انسانوں سے ان کے ماں باپ سے بھی حد درجہ محبت کرنے والا ہے نعوذ بااللہ انسانوں پر ایسا ظلم کرسکتا ہے؟نہیں ! ایسا نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس برائی کو ختم کرنا چاہتا ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے دوچار کرنے والی ہیں۔
اسی لیے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات واضح الفاظ میں آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو فراہم کردی ہے ،کہا کہ:”اے نبیۖ ، ان سے کہو کہ آ ئو میں تمہیں سنائوں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے، اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی، اور کسی جان کو، جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو”(الانعام:١٥١)۔یہ وہ موٹی موٹی خرابیاں اور برائیاں ہیں جن کا تذکرہ بطور تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلامی نظام و حکومت کی موجودگی میں ان پر ہر ممکن گرفت کی جائے گی، برائیوں کو فروغ دینے والے ہر ممکن ذریعہ پر روک لگائی جائے گی، ساتھ ہی خدا اور آخرت کے اسلامی تصور سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے گا۔
اِن تمام مراحل سے گزرنے کے بعد بھی اگر کوئی زنا کا مرتکب ہوتا ہے، اس وقت اس کو کھلے عام سنگسار کیا جائے گا۔اس لیے کہ مجرمین کو سزا ملے اور اس لیے بھی کہ دیگر افراد منظر کو دیکھ کر برائی کی شدت سے نہ صرف متعارف ہوں بلکہ اس کے قریب بھی نہ جائیں۔ درحقیقت یہ وہ برائی ہے جو نہ صرف متاثرین اور اس میں ملوث افراد کے درمیان اپنے خبیث اثرات چھوڑتی ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے فکری و عملی ہلاکت کا بھی سبب بنتی ہے۔ لہذا پہلے برائی کی شدت سے متعارف کرایا، اس کے پھیلائو پر گرفت کی گئی، اور بعد میں انجام سے ڈرا نے کے علاوہ یہ بھی بتا دیا کہ دراصل یہ اللہ کی واضح ہدایات و حدود ہیں، ان سے گریز صرف وہی شخص و اقوام کر سکتی ہیں جو سمجھ بوجھ سے کام نہ لیں۔ اس کے برخلاف اگر برائی میں لذت محسوس کی جائے، ذرائع پر گرفت نہ کی جائے، اور پھر بھی “ریپ “کی سزا پھانسی یا اسلامی قوانین پر عمل درآمد کی صدا بلند کی جائے تو ایسے لوگ ہی دراصل ظلم کے پرستار کہلائیں گے۔ لیکن اگر ماحول ساز گار ہوچکا ہو۔
Quran Pak
دلوں میں خوف خدا بیٹھ گیا ہو، جہنم کی ہولنا کیوں اور جنت کے خوشنما مناظر سے لوگ نہ صرف واقف بلکہ ایمان بھی لے آئے ہوں یا حالات یہ ہوں کہ لوگ بیعت لے رہے ہوں، تو قرآن حکیم فرماتا ہے کہ :”اے نبی، جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی، اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور اْن کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے(الممتحنہ:١٢)۔ یہ وہ تعلیمات اور حالات ہیں جن میں نہ صرف اللہ تعالیٰ لوگوں کی مغفرت فرمائے گا بلکہ تبدیلی افکار و اعمال کے نتیجہ میں ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آئے گا۔
یہی وہ حالات ہیں جن کی آج شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ لیکن “سوچنے سمجھنے والے دماغ “یا تو مسلہ اور اس کے حل سے واقف نہیں یا نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و حسد کے نتیجہ میں قرآنی تعلیمات و سنت رسولۖ کی روشنی میں مکمل طور پر عمل درآمد کا جذبہ نہیں رکھتے یا پھر وہ چاہتے ہی نہیں کہ ان تعلیمات کو متعارف و نافذ کیا جائے۔ حالات کے پس منظر میں یہ وہ بڑی رکاوٹ ہے جو کسی بھی مسلہ کا واضح اور حتمی حل پیش نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود ہدایت کے خواہشمند و طلبگاروں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اور اے نبیۖ ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھ پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انہیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں”(البقرہ:١٨٦)۔ تحریر : محمد آصف اقبال