میں حیران ہوتی ہوں ان خواتین پر جو ہندو پاک میں رہ کر خصوصا پاکستان میں رہ کر ادھ ننگے لباس میں ،کھلے سر ، کھلے گلے ، بنا آستین یا برائے نام آستین اور باریک لبادوں میں خود کو گھر سے باہر لاتی ہیں اور پھر شکایت کرتی ہیں کہ ہم محفوظ نہیں ہیں اور خود کو ڈھانپنے کا کہو تو فرماتی ہیں کہ ہم پردہ کیوں کریں تم پردہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔
سچ کہوں تو یہ پردہ ان بے پردہ خواتین کی عقل پر پڑ چکا ہوتا ہے جبھی تو ایک آذادی اور بےپردگی پسند گروہ کی خواتین کبھی یورپ امریکہ کی مثال دیتی ہیں کہ وہاں تو عورت بے لباس بھی گھومتی ہے وہاں کے مردوں پر تو عورتوں پر یوں جھپٹنے کے دورے نہیں پڑتے تو کبھی دوسری پردہ پسند خواتین امریکہ اور یورپ میں ہونے والے ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات پر فخر سے بیان فرماتی ہیں کہ دیکھو کیونکہ ہم پردے میں ہیں اس لیئے ہمارے ہاں ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔۔۔
تو احترام سے ان دونوں گروہوں کی خواتین سے عرض ہے کہ پیاری بہنوں
۔ ان (یورپ اور امریکہ ) کی مٹی میں اور ہماری مٹی میں، آب و ہوا میں زمین آسمان کا سا فرق ہے ۔ وہ ٹھنڈے مزاج کے پرسکون لوگ ہیں ۔ وہ تو اپنی بیویوں پر نہیں ٹوٹ پڑتے تو کسی اور پر کیا ٹوٹ پڑیں گے ۔ اور ادھر ہمارے مرچ خور گرم مزاج مرد تو جھاڑی پر دوپٹہ پڑا دیکھ کر اسے تاڑنے سے باز نہیں آتے ۔ کھسروں کے پیچھے پاگل ہو کر پری جیسی بیوی گھر میں بٹھا کر دوست کو قتل کر دینے والے ان لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے لوگوں سے مت ملائیں ۔ آپ میں سے وہ خواتین جو امریکہ یورپ میں رہ چکی ہیں کیا آپ کو عادات و مزاج کی یہ سردی گرمی محسوس نہیں ہوئی ؟
بالفرض میں غلط بھی کہہ رہی ہوں تو بحیثیت مسلمان کے اللہ پاک کے احکامات کی لوجک سمجھ میں نہ آئے تو کیا ہم اسے رد کر دیں ؟
عصمت دری کے جو ریشو ہم پاکستان میں بیٹھے لوگ خوشی سے بیان کرتے ہیں ہمیں تو یہ ہی نہیں معلوم کہ وہاں زیادتی کہتے کس کو ہیں ؟
یہاں یورپ اور امریکہ میں آدمی اپنی ہی بیوی کو اس کی مرضی کے بنا چھو لے تو وہ بھی اس پر ہیرسمنٹ اور زیادتی کا پرچہ کروا دیتی یا کروا سکتی ہے ۔ کسی کا ہاتھ اس کی مرضی کے بغیر پکڑنے پر اس پر یادتی کا کیس بنا دیتی ہیں ۔ اور نہ بنائیں تو اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بے نکاحے رہنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتی ہیں ۔ اسی لیئے یہاں کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کیساتھ کوئی بات ہوئی ہے تو اس میں اس خاتون کی اپنی رضامندی کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔اسی لیئے یہاں پر سوئی جیسی بات بھی رپورٹ کی جاتی ہے جسے ہم عصمت دری کے واقعات کہہ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واہ واہ ہم تو صاف ستھرے ماحول میں ہیں ہمارے ہاں تو ایسے کیسز برائے نام ہیں ۔ جبکہ معاملات اتنے خوفناک ہیں کہ پاکستان میں اگر ہر کیس یورپ اور امریکی قانون اور آذادی کے حساب سے درج کروانے پر آئیں تو ہم دنیا میں ہیرسمنٹ اور عصمت دری کا ورلڈ ریکارڈ بنا سکتے ہیں۔
یقین نہیں آتا تو آپ اکیلی عورت کو برقعے ہی میں کسی سڑک کے کنارے کسی کے انتظار میں بھی دس منٹ کھڑا کر کے دیکھ لیں ۔۔لیکن آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔۔مردوں کا جم غفیر اسے گدھوں کے طرح گھیر کر جھپٹنے کو بیقرار ہو جائے گا ۔ اچھے بھلے شریف گھر کی شریف عورت بھی اس وقت خود کو پراسٹیٹیوٹ سمجھنے لگتی پے ۔ بس میں ،ٹرین میں ، بھرے بازار میں کہیں بھی سب کو بتا کر کہ میں اکیلی سفر کر رہی ہوں یا یہ لڑکی اکیلی سفر کر رہی ہے ۔ اس کی حفاظت سے باعزت پہچنے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ہے۔
رہی بات ریشو کی تو جس معاشرے میں شریف اور گھر بیٹھی کنواری لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں وہاں اگر وہ کہیں اپنے ساتھ کسی کی زیادتی کا کیس بھی رپورٹ کروا دے تو ایمان سے بتائیں کتنے جرات مند و غیرت مند مرد ہوں گے جو اس سے شادی کرنے کو تیار ہونگے ؟ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے منافق معاشرے میں ایسی عورت کو دھندے پر تو بٹھانے میں کسی کو کوئی عار نہیں ہو گا لیکن اسے بیوی بنا کر عزت کی چادر اوڑھانے والا کوئی نہیں ہو گا ۔ اس لیئے ہمارے ہاں ہر کیس کو مٹی ڈال کر زبان سی لی جاتی ہے۔
صرف وہ کیسز منظر عام پر آتے ہیں جو چھپانے ناممکن ہو جاتے ہیں ۔ اس لیئے میں ممتاز ملک بیس سال سے یورپ میں رہتے ہوئے ان یورپئین مردوں کی شرافت اور اعلی کردار کی گواہی دیتی ہوں اور افسوس کیساتھ 26 سال پاکستان میں گزار کر پاکستانی مردوں کی اکثریت کی گھٹیا کردار اور گھٹیا سوچ ہونے کی گواہی دیتی ہوں ۔ ۔۔۔ سب نہیں لیکن اکثریت ۔۔۔۔باقی جو رہ جاتے ہیں یہ بھی وہ ہیں جنہیں یا تو موقع نہیں ملتا یا پھر ۔۔۔۔۔
میں یورپ میں اپنی بیٹی کو رات کے دو بجے دو تین بسیں اور ٹرینیں لیکر ایک جگہ سے دوسری جگہ کام پر آنے جانے کی اجازت دیتی ہوں ۔ ایمانداری سے حلفا بتائیے کیا آپ پاکستان میں ایسا کر سکتے ہیں ؟