مایوسی کے سوا کیا ہے؟

Disappointment

Disappointment

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال

ہمارے ہاں عدم تحفظ کا احساس ،نا امیدی اورمایو سی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بات کو چھوڑ کر کہ ہمارے ملک کے اصل مسائل کیا ہیں ،ان مسائل پر بات زیادہ ہوتی ہے جو ہیں تو مسائل ہی مگر ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے یعنی ان کو اتنی ترجیح نہیں دی جانی چاہیے تھی آج ہم ان مسائل کی بات کرتے ہیں جن کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی اور اگر ان مسائل کا خاتمہ ہو جائے تو باقی مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں یا ان کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔

لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی خاص کام نہیں ہو رہا تو مایوسی کا اندھیرا پھیل جاتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ آئین کے نفاذ کا ہے اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہی دیگر مسائل ہیں ۔جن میں عدل و انصاف ،کرپشن،لوڈشیڈنگ،مہنگائی،ملاوٹ،بیروزگاری غربت ،تعلیم، نصاب تعلیم ،پانی ،روٹی ،کپڑا ،مکان وغیرہ وغیرہ اگر جو ہمارے ملک کا قانون ہے اس پر عمل ہو جائے تو (کتنے مسئلے حل ہو جائیں )ان کا نام و نشان تک نہ رہے ۔سب سے اہم عدل و انصاف اور کرپشن ہے اسی وجہ سے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ہے ا ور دیگر تمام مسائل بھی۔

ایک کام ہو جائے صرف ایک کام اور وہ ہے آئین پر عمل حقیقت میں آئین کا نفاذ مگر یہ کیسے ممکن ہے ؟کس کی ذمہ داری ہے؟کیوں نہیں ہو رہا؟اس کے جو ذمہ دار ہیں اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو ان کو اس عہدے پر رہنے کا کیا حق ہے؟ ہمارے مسائل کیوں حل نہیں ہوتے ؟اس میں سارا قصور عوام کا ہے ،بھگتنا بھی عوام نے ہوتا ہے۔ ا صل سوال کیا عوام اتنی باشعور ہو سکتی ہے ؟کیسے ہو سکتی ہے ؟ دراصل اس میں اتنی ر کاوٹیں ہیں ابھی تو عوام کی اکثریت کو ان رکاوٹوں کا علم ہی نہیں ہے۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قانون پر عمل آئین کا مکمل نفاذ،اور اپنے حق کا عوام کو شعور حاصل ہو جائے ممکن نہیں ہے اس بارے میں جتنا سوچیں مایوسی بڑھتی جائے گی۔

ہمارا ایک قوم ہونا قائد کے قول ایمان ،اتحاد ،تنظیم پر عمل کا نہ ہونا 67 سال میں ہم ایک قوم نہ بن سکے نہ علاقہ کے لحاظ سے نہ مذہب کے لحاظ سے ۔علاقائی طور پر ہم سندھی، پنجابی، پشتوں، بلوچی پٹھان کے علاوہ سرائیکی وغیرہ میں بٹ گئے اسی طرح مذہب و فرقہ نے بھی ہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا فرقہ بندی ہے تو کہیں ذاتیں ہیں ۔۔۔۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
۔ اگر ہمارے ملک کے مختلف مذہبی رہنما حقیقت میں دین اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اگر وہ سچ مچ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہیں تو ان میں اتحاد کیوں نہیں ہے؟۔

وہ اللہ کی رسی کو مل کر کیوں نہیں تھامتے آخر کیوں ؟ سب دین اسلام اور مسلمان ہونے پر زور دیں ،مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ان میں اتحاد ممکن ہے ذرہ سوچیں تو مایوسی اپنی انتہاپر پہنچ جاتی ہے۔اس کے علاوہ بیرونی اور اندرونی شازشوں نے قوم کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ اصل مسائل تو اب ہم کو یاد ہی نہیں رہے۔ایک مسئلہ یا ایشو ہمارا میڈیا اٹھا تا ہے اس پر چند دن بات ہوتی ہے پھر نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے،یا کر دیا جاتا ہے ،کہنے والے کہتے ہیں عوام کا دل بہلانے کو مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں میڈیا اس کوسب سے بڑامسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے

پہلا مسئلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے بلکہ اند ر ہی اندر سے قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے پھر نئے سے نیا مسئلہ جس کے شور میںپرانامسئلہ بھول جاتے ہیں ۔ہمارا عدالتی نظام کو دیکھ لیں میں سوچتا ہوں عدلیہ آزاد نہیں تھی جو ہو گئی ہے تو کیا ہو ا؟کیا اس نے تمام مقدمات کا فیصلہ غیر جانبداری سے کر دیا ہے ؟اس کے آزاد ہونے سے عوام کو کیا ریلیف ملا ہے ؟ آپ جمہوریت کو دیکھ لیں اب تک کی جمہوریت سے عوام کو کیا فائدہ ملا ؟کیا غربت میں کمی آ گئی ہے ؟اب غریب عوام کو جائز کاموں کے لیے رشوت نہیں دینی پڑتی ؟کیاعوام اقتدار میں شامل ہو گئے ہیں ؟کیا ایسا دور دور تک نظر آ رہا ہے ۔؟

Pakistan

Pakistan

اپنے ارد گرد دیکھیں سیاست دانوں ،مذہبی رہنماوں کے بیانات سنیں، حکومت کی پالیسی دیکھیں جواب میں دیوار پر سنہری الفاظ میں لکھا ہے مایوسی۔ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کے اصل گھر بیرون ملک ہے۔اور وہ پاکستان میں تو صرف حکومت کرنے آتے ہیں جب ہمارے حکمران ایسے ہوں گے تو عوام کاکیا حال ہو گا حکمرانوں کو چاہیے کہ ان کی جو دولت بیرون ملک بینکوںمیں ہے اس کو واپس لائیں اور پاکستان میں انڈیسٹریز لگائیں تاکہ بے روزگاری دور ہو اور جب ان کی اپنی فیکٹریاں اپنے وطن میں ہوں گی

تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی ہو جائے گی۔کیا ہمارے اپنے حکمران ملک و قوم اور اپنی پیاری عوام کے لیے یہ قربانی دیں گے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس پر مایوسی اور نہ بڑھ جائے تو کیا کرئے۔یہ تو چند ایک باتیں تھیں اس طرح کے ہزاروں مسائل ہیں جن پر سوچیں تو مایوسی کے سوا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روشنی کے کئی ایک دیئے روشن ہیںان پر پھر کھبی بات ہو گی ۔آپ کی رہنمائی کا انتظار رہے گا۔

Akhtar Sardar

Akhtar Sardar

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال