راول ٹائون میں قومی خزانے کا ضیاع

Corruption

Corruption

پچھلے دنوں پنجاب بھر میں بڑے جوش و خروش سے انٹی کرپشن ڈے منایا گیا مختلف سرکاری اداروں نے سول سوسائٹی کی مدد سے سیمینار منعقد کیئے جبکہ اس حوالے سے خصوصی واکس کا بھی اہتمام کیا گیا، اس بات میں کوئی شق نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صوبے میں کرپشن کے خاتمے کیلئے دن رات انتھک محنت کر رہے ہیں اور ان کی ٹیم میں انتہائی قابل ساتھی اور قابل افسران بھی شامل ہیں لیکن ایسی محنت اور قابلیت کس کام کی؟ جب چیک اینڈ بیلنس کے کسی موثر نظام کو پنپنے ہی نہ دیا جائے ہر ”سزا و جزا،، سے پہلے سب اچھا کی رپورٹ ملتی رہے، سر پر آن پڑے یا بدنامی کا اندیشہ پیدا ہو تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے، ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں بلکہ مثبت تنقید اور اصلاح کے پیش نظر راولپنڈی شہر کے اہم ادارے راول ٹائون کے شعبہ لائٹ برانچ میں ہونیوالی بے قاعدگیوں اور کرپشن کی طرف توجہ مبذول کرا رہا ہوں، شاید 20 یا 25 برسوں کی کوتاہیوں اور نقصانات کا ازالہ ہو سکے۔

دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ اس شعبہ کے ایکسین، ایس ڈی او، سب انجینئر سمیت افسران کی پوری کی پوری ٹیم الیکٹریکل کی بجائے سول ڈپلومہ رکھتی ہے اور یہ افسران کنسلٹنٹ کے بغیر اک ککھ بھی ادھر ادھر نہیں کر سکتے صرف بل اور مال بنانے کے ماہر ہیں، پہلے اس شعبے میں ایک مالی، ایک بیلدار اور ایک نائب قاصد بطور الیکٹریشن فیلڈ میں کام کر رہے تھے بعد ازاں چار نئے الیکٹریشن بھرتی کر لیئے گئے جن میں سے سب کے سب الیکٹریشن کا کام نہیں جانتے، اس شعبہ میں واحد سٹور کیپر جاوید اختر ہے جو عرصہ 28 سال سے ایک ہی جگہ پر تعینات ہے، ٹینڈر ورک اور کوٹیشن ورک کے تحت جس سامان کی بھی خریداری ہوتی ہے، اس کے متبادل استعمال شدہ مال کی سٹور میں واپسی نہیں ہوتی، مثال کے طور پر اگر
ایک ہزار بلب اور ایک ہزار چوک خریدکر لگائی جائے تو اتارے گئے خراب ایک ہزار بلب کی بجائے ایک 100 بلب اور اتاری گئی خراب ایک ہزار چوک کی بجائے ایک 100 چوک بھی (تقریبا ) واپس سٹور میں جمع نہیں کرائی جاتی اگر فرض کرلیا جائے کہ 10 فیصد مال چوری بھی ہو گیا ہے.

90 فیصد مال واپس جمع کرایا جانا چاہیئے، اسی طرح مرمت شدہ مال لگا کر نئے مال کی کھپت کی فرضی خانہ پری کرلی جاتی ہے، خراب بلب اور خراب چوک کو توڑ کر ناکارہ سامان کی نیلامی ہونی چاہیئے تاکہ یہی سامان مرمت ہو کر دوبارہ ٹی ایم اے کے ذریعے استعمال میں نہ لایا جا سکے، ہر یوسی کا علیحدہ رجسٹر ہے اور ریکارڈ بھی ہر سال علیحدہ ہونا چاہیئے، جہاں جس علاقے میں 10 نئے بلب لگائے جائیں وہاں 2 سے لیکر 4 نئی چوک لگانے کا بھی لکھ لیا جاتا ہے اتنے مال کی خریداری اور کھپت کے باوجود آج بھی آدھا شہر روشنی سے محروم کیوں ہے؟

Contractors

Contractors

آخر یہ مال کہاں جاتا ہے درجنوں ٹھیکیداروں میں سے اس شعبہ کو صرف دو ہی ٹھیکیداروں نواب علی اور کاشف کے حوالے کیوں کیا گیا ہے؟ آج کل” ایل ای ڈی،، (غیر ملکی)لائٹ کا بڑا چرچا ہو رہا ہے اور سرکار کو نئی پھکی دینے کی کوشش کی جارہی ہے، بازار میں اس لائٹ کی قیمت 15 ہزار سے بھی کم ہے لیکن جب بجلی کی بچت اور دو سال وارنٹی کا بہانہ بنا کر بل بنے گا تو اس کی قیمت شاید 75 ہزار سے بھی کراس کر جائے گی حالانکہ اس کے بدلے میں فی کس ایک ہزار روپے میں 45 واٹ کا انرجی سیور بھی خریدا جا سکتا ہے جس کی وارنٹی ایک سال ہے، سیالکوٹ سمیت پنجاب کے دیگر شہروں باالخصوص پوٹھوہار ٹائون میں 45 واٹ کا انرجی سیور ہی استعمال میں لایا گیا ہے جس سے نہ صرف توانائی بحران سے نکلنے میں مدد مل رہی ہے بلکہ پنجاب کے عوام اور حکومت کو اضافی اخراجات سے چھٹکارے کے ساتھ و بجلی کے بلوں کی مد میں بھی اربوں روپے کی بچت ہو رہی ہے، اسی طرح راول ٹائون میں 250 واٹ کی 2 کروڑ روپے سے زائد کی سوڈیم (پیلی) لائٹس لگائی گئی ہیں جس سے انرجی سیکٹر پر 30 سے 40 فیصدتک لوڈ بڑھ گیا ہے اور محکمہ کے اخراجات اور واپڈا کو بل کی مد میں ادا کی جانیوالی رقم میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی وزیر بلدیات، کمشنر،ڈپٹی کمشنر،ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی اور ایڈمنسٹریٹر محمد علی رندھاوا کوایل ای ڈی لائٹ کی خریداری(غبن)کی پروپوزل کا نوٹس لینا چاہیئے اور گزشتہ دس سال سے ٹینڈر ورک اور کوٹیشن ورک کے تحت خریدے گئے اور جمع شدہ مال کا نئے سرے سے ایماندار اور فرض شناس افسران کے ذریعے آڈٹ کرایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے اور ہر سال ہونے والی کروڑوں کی کرپشن کے چو راستے بند ہو جائیں۔

اعلیٰ حکام کو فوری طور پر ٹی ایم اے آر ڈی اے، پرونشل ہائی وے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے گزشتہ پانچ سالوں میں لگائی گئی لائٹس کی تعداد اور مینٹیننس کے سامان کی خریداری سمیت تمام اخراجات باالخصوص بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا مکمل حساب لینا چاہیئے اور لائٹ برانچ میں تعینات سول ڈپلومہ ہولڈر (اناڑی) افسران سے تمام اختیارات واپس لیکر الیکٹریکل ڈپلومہ ہولڈر (اہل) افسران کی تقرری کا حکم جاری کرنا چاہیئے تاکہ قومی خزانے کی بچت کے ساتھ ساتھ راولپنڈی شہر کی روشنیاں اور رونقیں بھی صحیح معنوں میں بحال ہو سکیں۔

Mumtaz Khan

Mumtaz Khan

تحریر: ممتاز خان