تحریر : ڈاکٹر محمد نعیم اختر میرا روزانہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں سے گزر ہوتا ہے۔ صبح اسلام آباد میں داخل ہوتی ہوئی ٹریفک بلاک ہوتی ہے اور شام کو راولپنڈی میں داخل ہوتی ہوئی ٹریفک بلاک ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے گاڑیوں کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل کے منظر نامے کے بارے میں سوچ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے شہروںکامناسب انداز میںاس کے حدوداربع کا تعین کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نیا شہر قائم کرنے سے پہلے باقاعدہ انداز میںمنصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ شہر کی تمام ضروریات کا تعین کیا جاتاہے۔ یہ تمام منصوبہ بندی صرف چند سالوںکو مدنظر رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ اس شہر کی آیندہ صدیوں کی ضروریات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔اس تمام منصوبہ بندی کا مقصد اس شہر کے باسیوں کو اعلی معیار کی سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اس قسم کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔اگر ہم راولپنڈی کی بڑی شاہراہوںکا جائزہ لیں تو پشاور روڈ، مری روڈ، راول روڈ اور ائرپورٹ روڈ اہم شاہراہیں شمار ہوتی ہیں۔ بیشتر شاہراہیںدو رویا ہیں۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوے ضرورت تو اس بات کی تھی کہ نئی شاہراہیں قائم کی جاتیں یا موجودہ شاہراہوں کو کشادہ کیا جاتا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو پراجیکٹ سے بلاشبہ شہر کے باسیوں کو ایک اچھی سفری سہولت میسر ہو گئی ہے لیکن کیا اس سے شہریوں کی سفری مشکلات کا ازالہ ہوگیا ہے؟جواب نفی میں ملے گا۔ خصوصاً اگر سوچا جائے تو یہ بات بھی غور طلب ہے کہ میٹرو بس کا گزر صرف مری روڈ سے ہوتا ہے۔ جب کہ راولپنڈی کی کل آبادی کا چند فیصد ہی مری روڈکے آس پاس رہتا ہے۔
Islamabad Expressway
آج سے چند سال قبل پرویز مشرف کے دور میں مری روڈ سے ٹریفک کے دبائو کو کم کرنے کے لیے نالہ لئی ایکسپریس وے کا پراجیکٹ تجویز کیا گیا لیکن وہ تجویز کی حد تک ہی محدود رہ گیا۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز تھی۔ جس سے مری روڈ پر ٹریفک کا زور کم ہوتا۔اسی طرح یہ تجویز بھی سننے کو ملی کہ صدر سے فیض آباد تک مری روڈ کے اوپر ایک پل نما شاہراہ قائم کر دی جائے جس سے ان تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو روزانہ راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف سفر کرتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز تھی لیکن اس تجویز کو قابل عمل نہ سمجھا گیا۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹروپراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اب مری روڈکو مزید کشادہ کرنے کی گنجایش بھی ختم ہوگئی ہے۔مری روڈ پر ٹریفک کے بڑھتے ہوئے رش کو کم کرنے کیلئے دیگر شاہراہوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے شاہراہوں پر ٹریفک بڑھتی چلی جارہی ہے اور چندہی سالوں میں ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کر جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلے کا حل نکا لیں۔
Traffic Accidents
راولپنڈی اور اسلام آباد کاشائد پاکستان کے ان بدقسمت شہروں میں شمار ہوتے ہیں جو بائی پاس سے محروم ہیں۔ بھاری ٹریفک دونوں شہروں کے بیچوں بیچ سے گزر رہی ہوتی ہے جس سے شہریوں کوبہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ شہریوں کو آئے روز حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی متقاضی ہے کہ جلد از جلد ان شہروں کے لئے ایک عدد بائی پاس تجویز کیا جائے جس سے بھی شہروں کے ٹریفک کے مسائل میں کمی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ لاہور کے علاوہ بھی پنجاب کے بڑے شہروں کے بڑھتے ہوئے شہری مسائل پر بھی توجہ دی جائے تا کہ وہاں کے شہریوں کے مسائل بھی حل ہو سکیں۔