دفاع وطن کے لئے پاک فوج کی قربانیاں لازوال ہیں۔ سانحہ بنوں و آر اے بازار پنڈی پاک فوج کے شہداء نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کو ثابت کر دیا ہے کہ پاک وطن کی حفاظت کے لئے وہ کسی بھی بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے کسی بھی دیگر فوج کے مقابلے میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور ابھی تک مسلسل دے رہی ہے جو رائیگاں نہیں جائیں گی۔ پاک فوج نے بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمال بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اور لازوال قربانیاں دیں۔ سیکورٹی فورسز پر حملے پاکستان کی سلامتی پر حملے ہیں ملک کیلئے جانیں دینے والے پاک فوج کے دلیر جوان قابل فخر ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات منظم سازش کے ساتھ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں اور تجزیہ نگاروں کو ملک دشمن قوتوں اور عناصر کے چہروں سے پردہ اُلٹ دینا چاہئے اور ان کے اصل چہرے قوم کے سامنے لائے جائیں۔ امریکہ اور دیگر دشمن قوتیں پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرکے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ اور اس خطے میں بھارت کی بالا دستی قائم کرنا چاہتی ہیں ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ دشمن قوتیں تو متحد ہیں مگر ہم انتشار کا شکار ہیں پوری قوم کومتحد ہوکر دشمن کے ایجنڈے کو ناکام بنانا ہوگا۔بنوں کے بعد راولپنڈی چھائونی میں جی ایچ کیو کے قریب آر اے بازار چوک میں خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 8 فوجیوں اور 2طالبعلموں سمیت 14 افراد شہید اور31زخمی ہو ئے۔ عینی شاہدین کے مطابق خود کش حملہ آورکی عمر 16سے 18سال تھی اور وہ پیدل تھا،اس نے پہلے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ کی جانب جا نے کی کو شش کی لیکن سخت چیکنگ کے باعث واپس آکر عین چوک میں سائیکل سٹینڈ پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا، شہید ہو نے والوں میں اصغر، حوالداراکرم، نائیک عمران، نائیک انور، سپاہی محمد عابد، رشیداحمد، طالب علم عمر رفیق، نائیک غلام مصطفی، سپاہی شاہین بادشاہ، طالب علم مبشر مشتاق، نائیک محمدصدیق، سرکاری ملازم عابد، نجی کالج کا ملازم زبیرشامل ہیں جبکہ محمد بلال، محمد طارق، سپاہی محمد رفیق، محمد عامر ، شاہین انور، محمد بشارت، منور جان، نفیس احمد، سرکاری ملازم عبدالر حمان، محمد عامر، رضا مصطفی، جاوید، نوید عباس، محمد افضل، فضل عباس، رفیع اللہ، فیض احمد، جعفر حسین، ظفر اقبال، حوالدار ندیم، غضنفر علی، محمد عقیل، یوسف، حوالدار گل دراز، منور، طیب خان، محمد حسن، رحمت اللہ اور دیگر زخمی ہوئے۔
تحقیقا تی ٹیموں نے جائے دھماکہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاء ،دھماکے میں استعمال ہو نے والے بال بیر نگ اور3ہینڈ گر نیڈ بر آمد کر لئے۔ ڈسٹرکٹ آفیسر سول ڈیفنس نے بتایا کہ خود کش حملہ میں6پونڈ بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا جو کہ ہائی ایکسپلوزو تھا جس نے 50 میٹر حدود کے اندر ہر چیز تباہ کر کے رکھ دی۔پنجاب حکومت نے آر اے بازار میں جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 5،5 لاکھ امداد کا اعلان کردیا ہے۔ صدر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت دیگر سیاسی قا ئدین نے اس حملے کی شدید الفا ظ میں مذمت کی ہے۔خود کش حملے کا مقد مہ تھا نہ آر اے بازار میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کر لیا گیا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے حالیہ واقعات پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بنوں اور راولپنڈی میں اہلکاروں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہاکہ حملوں کے باوجود پاک فوج کے حوصلے بلند ہیں اور ہر صورت میں ان حالات کا مقابلہ کیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد سکیورٹی انتظامات کو بھی اپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ بزدلانہ کارروائیوں سے حکومت، مسلح افواج اور عوام کے حوصلے کمزور نہیں ہو سکتے، ملک کو امن کا گہوارہ بنا کر دم لیں گے۔ آر اے بازار کی یہ وہی چیک پوسٹ ہے جہاں اس سے قبل دو مرتبہ خودکش حملے ہو چکے ہیں جس میں ایک حساس ادارے کی ایک بس بھی اڑا دی گئی تھی جس میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔
RA Bazar
یہ شہر کا حساس ترین علاقہ ہے جہاں پر فوجی یونٹس کے علاوہ پاکستان آرمی کے انجینئران چیف کا آفس’ تھانہ آر اے بازار پٹرول پمپ اور حساس اداروں کے دیگر درجنوں دفاتر ہیں۔ جائے وقوعہ سے کچھ ہی دور اے ایف آئی سی بھی ہے جہاں پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف زیر علاج ہیں۔ اس علاقے میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی اطلاعات ہیں لیکن علاقہ کی تاجر برادری نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا کہ اگر یہ مین سڑک بند کر دی گئی تو پھر ہمارا سارا کاروبار ہی تباہ ہوجائیگا جس کے بعد فوجی حکام نے اس کو کھول دیا۔ راولپنڈی آر اے بازار خودکش دھماکے میں جاں بحق ہونے والا 19 سالہ طالب علم مبشر 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا’ مبشر کی خودکش دھماکے میں شہادت سے لواحقین پر صدمے کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ دھماکے میں شہید ہونے والے 19 سالہ طالب علم مبشر کے اہل خانہ ہسپتال پہنچے تو مبشر کی ہلاکت کی خبر سن کر لواحقین میں کہرام مچ گیا۔ مبشر کے والد نے بتایا کہ مبشر پانچ بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا اکلوتھا بھائی تھا روزانہ ٹیوٹا پر کالج جاتا تھا جس کے باعث دیر ہوجاتی تھی گزشتہ روز اسے دیر سے کالج پہنچنے پر وارننگ دی گئی تھی مبشر پیر کو موٹر سائیکل لے کر صبح سویرے کالج کیلئے نکل پڑا تاکہ وقت پر کالج پہنچ سکے لیکن اسے دنیا سے جانے کی جلدی تھی۔
مبشر کے والد نے کہا کہ اکلوتے بیٹے کی ہلاکت سے میری کمر ٹوٹ گئی ہے مبشر کی بہنوں پر غشی کے دورے پڑرہے ہیں تمام اہل خانہ میں کہرام برپا ہوچکا ہے۔مبشر تلہ گنگ کے گائوں سگھر کا رہائشی تھا جسکی تدفین آبائی علاقے سگھر میں کی گئی۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے آر اے بازار میں پیر کی صبح ہونے والے دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا اور دہشت گردی کے المناک واقعے کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور حکومت بالکل غیرفعال نظرآتی ہے۔ حکومت کی کوئی پالیسی نہیں،9سال سے آپریشن پر انحصار کیا جارہا ہے، 6 ستمبرکوکل جماعتی کانفرنس میں قومی قیادت کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی ذمے داری سونپے جانے کے بعد حکومت نے اس ضمن میں اب تک کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا جس کے نتیجے میں بے گناہ اور معصوم شہری آگ اورخون کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف نے راولپنڈی کے اسپتالوں میں زیرعلاج آر اے بازاردھماکے کے زخمیوںکی عیادت کی اوران کیلیے دعائے صحت کی اورواقعے کی تحقیقات اورذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
گذشتہ برس پاکستان میں 44 خودکش حملوں، بم دھماکوں اور جھڑپوں میں 91 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 781 افراد مارے گئے تھے جن میں 42 شدت پسند بھی شامل تھے مگر نیا سال 2014ء خونی سال بن کر سامنے آ چکا ہے اور پہلے مہینے میں ہی 20 جنوری تک خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں 97 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 205 ہے۔ مرنیوالوں میں 40 سکیورٹی اہلکار، 12 شدت پسند اور باقی شہری ہیں۔ 3 جنوری کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ میں اہلسنت و الجماعت اسلام آباد کے جنرل سیکرٹری مفتی منیر معاویہ اور ان کے ساتھی اسد محمود جاں بحق ہوئے۔ 4 جنوری کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں 2 طالب علم بھائیوں سمیت 2 پولیس اہلکار اور 11شہری قتل ہوئے۔ 6 جنوری کو وادی تیراہ میں لشکر اسلام کے مرکز میں دھماکہ ہوا جس میں 10 افراد جان سے گئے۔ اسی روز پشاور میں 2 پولیس اہلکار مارے گئے۔ ہنگو میں خودکش حملہ آور کو روکتے ہوئے طالب علم اعتزاز حسن شہید ہوگیا جبکہ حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔ 8 جنوری کو جنوبی وزیرستان چیک پوسٹ پر حملہ ہوا اور جھڑپ میں 3 اہلکار اور 10 شدت پسند اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ 17 جنوری کو راجن پور ریلوے ٹریک پر خوشحال ایکسپریس بم دھماکے میں 4 افراد جاں بحق ہوئے اور 60 افراد زخمی ہوئے۔
19 جنوری کو بنوں کینٹ میں فورسز کے قافلے پر بم حملے میں 26 اہلکار جاں بحق ہوگئے جبکہ 40 زخمی ہوئے۔ 9 جنوری کو کراچی میں ایس پی چودھری محمد اسلم بم دھماکوں میں جاں بحق اور 11 افراد زخمی ہوئے۔ 20 جنوری کو راولپڈی کینٹ کے آر اے بازار میں بم دھماکے میں 13 افراد جاں بحق ہوئے ان میں 6 اہلکار شامل جبکہ 24 افراد زخمی ہوئے۔جب تک حکومت امریکی جنگ سے لا تعلقی کا اعلان نہیں کرتی ، اس طرح کے المناک سانحات کا سامنا رہے گا ۔ حکومت امریکی جنگ سے باہر نکلنے کا اعلان کرے۔ دہشت گردی میں بے گناہ لوگوں کا خون بہت بہہ چکا،اب حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا اور صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہو گا،پاک فوج کے جوان قربانیوں پر قربانیاں دے رہے ہیں ،انکے خو ن کی لاج رکھنی ہوگی حکمرانوں کو مضبوط موقف اپنانا ہو گااور دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کاروائی کرنی ہو گی ،اگر آج بنوں ،پنڈی میں حملہ ہوا تو کل کہیں اور بھی ہو سکتا ہے،اپنے کل کو محفوظ بنایا جائے،کل محفوظ ہو گا تو ملک محفوظ ہو گا۔