لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی جیل سے راتوں رات رہائی کے بعد امریکا جانے والے ریمنڈ ڈیوس نے خود نوشت لکھی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پرائیوٹ کنٹریکٹر تھا جس نے 27 جنوری 2011ء کو مزنگ قرطبہ چوک پر دو نوجوانوں فیضان اور فہیم کو فائرنگ سے قتل کیا تھا۔ ایمیزون پر جاری اس کتاب کی تفصیلات کے مطابق ریمنڈ ڈیوس نے واقعے سے متعلق تمام حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ویب سائٹ پر جاری کتاب کا ٹائٹل دی کنٹریکٹر ہے۔
ریمنڈ نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح معمول کی ایک ڈرائیو فرنٹ پیج کی خبر بن گئی، جس کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بحران پیدا ہو گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی لکھا کہ اسے پاکستانی جیل میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ 49 روز تک جیل میں رہنے والے ریمنڈ ڈیوس نے اس قتل کو اپنے دفاع میں اٹھایا گیا اقدام قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ مارے جانے والے افراد اسے لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اپنی کتاب دی کنٹریکٹر: ہائو آئی لینڈڈ اِن اے پاکستانی پریزن اینڈ اِگنائیٹڈ اے ڈپلومیٹک کرائسز (میں کیسے ایک پاکستانی جیل میں بند ہوا جس سے سفارتیبحران پیدا ہوا) میں ریمنڈ ڈیوس نے اُن حالات کا ذکر کیا ہے جن میں اسے پاکستان میں دو ماہ جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔ ریمنڈ نے کتاب میں بتایا ہے کہ ان کی رہائی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کا کردار بہت اہم تھا۔ کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ جیسے ہی دیت کا منصوبہ تشکیل دیا گیا۔
اسی موقع پر پاشا اس معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے بھرپور انداز سے پرعزم تھے۔ ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی بتایا ہے کہ مقتول افراد کے اہل خانہ پر یہ معاہدہ قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ ڈیوس کے مطابق، چونکہ مقتول افراد کے 18 اہل خانہ یہ معاہدہ قبول کرنے سے ہچکچا رہے امریکی جاسوس کے مطابق جس شخص نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا تھا وہ مقتول محمد فہیم کا بھائی وسیم تھا۔
منصوبے کا ایک اور مخالف مشہود الرحمان تھا جس کا بھائی اس گاڑی سے ٹکر کی وجہ سے ہلاک ہوا جو مجھے بچانے کیلئے آ رہی تھی اور اُس نے حال ہی میں برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ مقتولین کے اہل خانہ کو شدت پسند اسلام پسندوں اور کٹر اسلامی ایجنڈے کی پیروی کرنے والے وکیل کی رائے سے دور رکھنے کیلئے جنرل پاشا کے لوگوں نے 14 مارچ کو مداخلت کی اور اِن 18 افراد کو حراست میں لے کر غائب کر دیا۔
کتاب میں شاہ محمود قریشی کے حوالے سے ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکام نامعلوم امریکی حکام کی پاکستان میں بڑھتی موجودگی پر مشتعل تھے اور وہ میری ناخوشگوار صورتحال کو امریکا کیلئے باعث ہزیمت بنانا چاہتے تھے۔اُن حکام میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے جنہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے مجھے سفارتی استثنیٰ دینے کیلئے دباؤ ڈالنے پر 30 جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ اپنے وکلاء کی معاونت کے ساتھ، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں سفارتخانے کیلئے نہیں بلکہ قونصل خانے کیلئے کام کرتا ہوں اور وہ نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے 1961 اور 1963 کا ویانا کنونشن پڑھا ہے اور جس طرح کی معافی امریکا میرے لئے مانگ رہا ہے وہ جائز نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اضافی شراکت داری کے قانون پر صدر بارک اوباما کی جانب سے دستخط کیے جانے سے تین دن قبل، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن پہنچے تاکہ پاک فوج کے تحفظات سے آگاہ کر سکیں
۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ہمیشہ سے ہی شاہ محمود قریشی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتے تھے۔ وہ اکثر قریشی کو دوست کہتے اور انہوں نے قریشی کے بیٹے زین کو اپنے پاس سینیٹ آفس میں انٹرشپ پر مقرر کیا تھا۔ لیکن جب جان کیری مجھے لاہور جیل سے چھڑانے کیلئے معاہدہ کرانے کی خاطر 15 فروری 2011کو پاکستان پہنچے تو قریشی نے وہ رویہ اختیار کیا جو ایک دوست جیسا نہیں تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے اسے فون کر کے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس ہمیں تم پر فخر ہے اور سابق صدر باراک اوباما اس معاملے پر ہر حد تک جانے کو تیار تھے۔ امریکی جاسوس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کی رہائی کے لئے کی جانے والی پیشرفت میں پاکستانی حساس ادارے اور سول حکومت بھی شامل تھی۔
ریمنڈ ڈیوس نے کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاز روانگی سے قبل تک امریکی سفارتکار خوفزدہ تھے کہ کہیں طیارے سے اتار نہ لیا جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ قید کے دوران کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب کے بعض حصوں پر امریکی خفیہ اداروں نے اعتراض کیا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ کتاب سال بھر تاخیر سے شائع ہوئی۔