ویسے تو ہر دور کے انسان نے دعویٰ کیا کہ ُاس نے ترقی کی معراج حاصل کر لی ہے۔ مگر بعد کے دور کے انسان اس چلینج کو ہمیشہ رد کر تے رہے ہیں۔ صرف اپنی دور کی ترقی کی بات کرتے رہے کہ ہم نے ترقی کی معراج پر ہیں۔پھر ہر دور کے بعد دوسرے دور کے انسان یہ گردان دھراتے رہے ہیں۔ہر نئے دور کے یہ دعوے قیامت تک چلتے رہیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ حضرت انسان اللہ کی پکڑ میں آ جائے گا۔وہاں سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ہم نے یہ تحریر لکھتے وقت اپنے ذہن میں ہر دور کی ترقی کا منفی نہیں بلکہ مثبت پہلو سامنے رکھا ہے۔
ترقی کی بات کی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ آج کل کے پڑھے لکھے ماضی کے ان پڑھوں سے کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا آج کے دور میں منافقت زیادہ نہیں ہو گئی ہے؟کیا جھوٹ نے ترقی کی مناز ل طے نہیں کر لیں؟کیا دھوکا دہی عروج پر نہیں؟ کیا وعدہ خلافی نے عام نہیں ہو گئی؟کیا ان سب منفی صلاحیتوں والے لوگ بڑے کامیاب انسان نہیں کہلاتے؟چاہے تجارت پیشہ لوگ ہوں۔
سیاست دان ہوں یا حکمران ہوں۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آجکل کے منفی صلاحیتوں والے لوگوں نے اس دنیا کو دکھوں سے بھردیا ہے۔ کیا جنگ عظیم میں نام نہاد متمدن ملکوں نے کروڑوں انسانوں کو قتل نہیں؟کیا اس دور کے امریکا بہادر نے جاپان پرایٹم بم گرا کر انسانیت کے خلاف گنائونا جرم نہیں کیا؟ کیا امریکا نے اپنی فاضل گندم کو افریقہ کے بھوکے غریب عوام میں تقیسم کرنے کے بجائے سمندر میں پھینک دینے کے عمل کو غیر جانب دار مورخ نے تاریخ نے ایک انسان دشمن عمل سے تعبیر کر کے محفوظ نہیں کیا ہو گا۔ کیانائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد نیو ورلڈ آڈر والے امریکا نے نیٹو ملکوں کے ساتھ مل کر کئی مسلمان ملکوں میں قتل عام نہیں کیا؟کیا امریکا نے ایٹم بم ، نائیٹروجن بم اور ڈرون کے بعد حارپ ٹیکنالوجی حاصل نہیں کرلی ۔کیا امریکایہ ٹیکنالوجی استعمال کر کے انسان دشمنی نہیں کر رہا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ امریکا زلزلے اور سیلاب اور طوفان نہیں برپاہ کرتا۔ امریکا نے حارپ ٹیکنالوجی سے پاکستان پر دو حملے کیے ہیں۔
ایک پاکستان میں٢٠٠٥ ء کازلزلہ اور دوسرا٢٠١٠ ء کاسیلاب۔ اس سے امریکا پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ تو پاکستان پراللہ کے فضل و کرم تھا کہ اسے کامیابی نہیں ہوئی۔حوالہ کے لیے گوگل میںجا کرجدید ٹیکنالوی پر ماہرانہ رائے رکھنے والے دانش ور نصرت مرزاکی سائیٹ (نصرت مرزا ڈاٹ کام) دیکھیں۔ حارپ ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کے متعلق ساری معلومات مل جائیں گی۔یہ ہیں آجکل کے پڑھے لکھے لوگ جن سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ان تباہی پھیلانے والی ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے والوں آج کل کے پڑھے لکھے لوگ شیطان صفت انسان کے مقابلے میں ماضی ایک رحمان صفت سائنس دان کا اپنے باشاہ کے ساتھ مقالہ یاد آیا۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ کب اور کون سے سائنسی رسالے میں ایک پرانے زمانے کے بادشاہ اور اس کے سائنس دان کا مقالہ پڑھا تھا۔ بادشاہ نے سائنس دان کی قابلیت دیکھتے ہوئے خواہش کا
و اظہار کیا کہ دشمن کی فوجوں کو تہس نہس کرنے کے لیے کوئی ایسا اسلحہ (ماس ڈسٹرکشن) تیار کرو کہ جس کے استعمال سے دشمن کی فوجوں آناً فاناً تباہ کر دو۔ رحمان صفت سائنس دان نے انکار کیا۔ بادشاہ بضد تھا۔ تکرار سے جان چھڑانے کے لیے وہ رحمان صفت سائنس دان اپنی لیبارٹی کے سمیت زمین سے اُڑ کر آسمان میں کسی دوسرے سیارے میں آباد ہو گیا۔ ویسے بھی آجکل کے سائنس دان ثابت کر چکے ہیں کہ آسمانی سیاروں میں انسانی زندگی کے آثار پا ئے جاتے۔ تو جناب آج کل کے شیطان صفت انسان کے مقابلے میں سے ماضی کے رحمان صفت انسان زیادیہ صلاحیت والا تھا کہ نہیں؟
پڑھنے لکھنے سیکھنے کا مطلب کہ کہیں سے پڑھنالکھنا سیکھنا اور اسے استعمال کرنا ہی توہے نا!چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔ یہ کام چاہے آج کے دور میںاسکولوں ، کالجوں یایونیورسٹیوں میںپڑھا، لکھا سیکھا جائے۔اکبر الہ آلہ آبادی نے یہ شعرآج کل کے پڑھے لکھے لوگوں کی لیے ہی لکھا ہے:۔
یو ں قتل پہ بچوںکے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کی فرعون کو کلاج کی نہ سوجھی۔
پرانے زمانے میں جب اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں نہیں ہوتیں تھیں تو لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ آسمانی کتابوں سے پڑھتے تھے اور انبیا سے جہان داری کے گر سیکھتے تھے۔یہ تو ایک اصولی بات ہے۔پہلے بھی لوگوں میں صلاحیت ہوتی تھی اور آج کل بھی لوگوں میں صلاحیت ہے۔ اس وقت صرف موازنہ کرنا ہے۔ عام طور پرپرانے زمانے کے لوگوں کو ان پڑھ کہا جاتا ہے تو کیا وہ واقعی ہے وہ ان پڑھ تھے یا کم صلاحیتوں والے تھے اوران میں کچھ بھی صلاحیت نہیں تھی تو یہ نظریہ غلط ہے۔ کیا آجکل کے زمانے کے لوگ پرانے زمانے کے لوگوں سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عظیم فاتح جنگیز خان بل لکل ان پڑھ تھا۔ اس نے یخ بستہ پہاڑوں سے اُتر کر اس وقت کی متمدن دنیا کے ملکوں کو فتح کر کے ان پر حکمرانی کی۔ جہاں اس کی وحشت کی بات نہیں صرف صلاحیت کی بات ہے۔ اسی طرح اور بھی نام ور لوگ ہوں گے جو بظاہر تو ان پڑھ تھے۔مگر اللہ کی صرف سے بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جیسے قرآن شریف میں لقمان حکیم کا ذکر جو اپنے بچوں کو حکمت کی بتاتیں بناتا ہے۔آج کل کی بڑی بڑی یونیورٹیوں کے پڑھے لکھے ہی پڑھے لکھے ہیں نہیں بلکہ پرانے زمانے میں قدرت کے آثار، دن رات، بارش، ہوا،روشنی اورآفاق میں پھیلی ہوئے دوسری چیزوں پر غور و فکر کر کے ایسی ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی تھیں کہ زندگی کی بڑی بڑی گھتیاں سلجایا کرتے تھے۔
لاہور کی بادشاہی مسجد کے میناروں میں بڑے بڑے لال پتھر استعما ل ہوئے ہیں۔ یہ اتنے بھاری ہیں کہ انسان ان پتھروں اتنی بلندی تک اُٹھا کرنہیں لے جا سکتا۔یہ اُس دور کی بات ہے جب وزن کو پلی کے ذریعے بلندی تک پہنچانے کی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ بڑے بڑے لال پتھر اتنے اونچے اونچے میناروں تک کیسے پہنچائے گئے تھے۔ ایس ہی احرام مصر کی بھی بات کی جا سکتی ہے۔ عرب کے بدو جب اسلام لائے تو اللہ نے انہیں وہ صلاحیتیں عطا کیں تھی کہ وہ دنیا کے امام بن گئے۔تو معلوم ہوا کہ آجکل کے پڑھے لکھے ماضی کے ان پڑھوں سے کم صلاحیت رکھتے ہیں۔