حدیث مبارکہ ہے کہ علم حاصل کرو گود سے گور تک اور علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ علم ایک لازوال دولت ہے علم ایک بے مثال طاقت ہے۔ انسان جتنا بھی مال دار ہوں، دولتمند ہو اسے اپنی دولت کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ کہ کوئی چور ڈاکو چھین کر نہ لے جائے۔ دولت خرچ کرنے س کم پڑتی ہے۔ مگر علم کو جتنا خرچ کیا جائے یہ بڑھتا ہے۔ گویا کہ علم انسان کی حفاظت کرنتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ آئیے میرے خطے حاصل پورمیں تعلیم کی زبوں حالی کا جائزہ لیجئے۔ جو کہ آبادی کے لحاظ سے جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پور میں سب سے بڑی اور پسماندہ تحصیل ہے۔
تحصیل بھر میں گورنمنٹ گرلز ایلیمنری و پرائمری سکولوں کی تعداد153ہے ۔ اور گورنمنٹ بوائز ایلیمنٹری و پرائمری سکولوں کی تعداد357ہے۔متعدد سکولوں کی چار دیواریاں نہیں ہیں۔ الماریاں اور دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کمرے صاف ستھرے اور بیٹھنے کے قابل نہیں ہیں۔اگر آپ ان سکولوں کا وزٹ کریں۔ تو آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ طالب علموں کی بجائے اداسی اپنی بانہیں پھیلا کر سوئی ہوئی ہے۔عمارتوں کو غور سے دیکھا جائے تو آپ کو لگے گا کہ یہ کسی آسیب کا مسکن ہے۔چپڑاسیوں کی مہربانیوں کی وجہ سے گھاس پھوس اور جڑی بوٹیوں نے سکولوں کے صحنوں کی خوبصورتی و حسن کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔ ٹیچرز چاہے میل ہوں یا فی میل شاہانہ انداز سے 15دن بعد سکول آتے ہیں۔ جیسے دورہ کرنے آئے ہوں۔گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب نے حاصل پور میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے دانش سکول بنوایا تا کہ غریب عوام کے بچے زیور ِ تعلیم سے آراستہ ہوں سکیں۔ مگر بے حس ایڈمنسٹریشن ، مغرور پرنسپل اور کرپٹ کلرکس غریب والدین کو کئی کئی چکر لگانے کے بعد کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر فائل مسترد کر دیتے ہیں۔اور اثر و رسوخ رکھنے والوں اور سفارشیوں کے بچوں کو دانش سکول میں شان و شیان طریقہ سے سکول میں داخلہ دیا جاتا ہے۔غرض ہر طرح سے میرے خطہ کی غریب عوام پس رہی ہے۔ جتنے پیسے پنجاب حکومت نے دانش سکول پر خرچ کئے ہیں ۔ اتنے پیسوں سے پورے علاقے کے سکول ٹھیک ہو سکتے تھے۔ جدید قسم کی عمارتیں اور جدید قسم کی لیب بن سکتی تھیں۔ جس سے ہزاروں بچے علم کی روشنی حاصل کرسکتے تھے۔
Education
ای ڈی او ایجوکیشن بہاول پور اور ڈپٹی ڈی ای اوز کہتے ہیں کہ ہم سکولوں میں بہتری لا رہے ہیں۔نئی عمارتیں بنوا رہے ہیں۔مانیٹرینگ والے کہتے ہیں کہ ہم بہتری لا رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا قائم کردہ مانیٹرنگ سیل بھی ناکام ہو چکا ہے۔اگر مانیٹرنگ کمیٹیاں کام کررہی ہیں۔ تو بہتری کیوں نہیں آ رہی۔متعلقہ حکام تک رپوٹس بھجوائی جا رہی ہیں۔ تو ایکشن کیوں نہ ہوتا۔ یا شائد پاکستان میںمعاملات جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔میرے علاقے کے سکولوں کی حالت زار بارے کی اربات اختیار نے کوئی احسن اقدام نہیں اٹھایا جسکا سہرا یہاں کی کمزور اور خود غرض لیڈرشپ کے سر پر جاتا ہے۔پہلے پورے برصغیر میں ریاست بہاولپور کی شرح خواندگی زیادہ تھی۔ دنیا چاند پر قدم رکھ چکی ہے۔ اور ہم ترقی معکوس کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سیکرٹری ایجوکیشن میرے خطے کے سکولوں کی بہتری بارے ضرور سوچیں اور ٹیچرز اپنی حاضریوں کو یقیی بنائیں جس سے نہ صرف طلباء و طالبات علم کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔ بلکہ علاقے میں امن و امان بھی قائم ہوگا جس سے میرے علاقے کے بچے بچیاں علم حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔